سبق نمبر 1.
اسوہ حسنہ کا قرآنی و اصطلاحی مفہوم
اسلامی فکر کا مرکزی نقطہ اور مسلمانوں کی انفرادی و اجتماعی زندگی کا محور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ بابرکات ہے۔ قرآن حکیم نے اس ذاتِ بابرکات کو انسانیت کے لیے بہترین اور کامل نمونہ قرار دیا ہے، جسے "اسوہ حسنہ” کہا جاتا ہے۔
عربی لغت میں لفظ "اُسوہ” کے بنیادی معنی "قدوۃ” کے ہیں، پیشوا، راہنما، امام یا نمونہ
اور لفظ "حسنہ” ہر اس شے پر دلالت کرتا ہے جو اچھی، عمدہ، دلکش اور خوبصورت ہو ۔ دونوں لفظ مل کر "اسوہ حسنہ” کی ترکیب بناتے ہیں ، جس سے مراد ایک ایسا کامل، بہترین اور جامع نمونہ عمل ، جو ہر اعتبار سے بے عیب اور قابلِ تقلید ہو۔
یہ تصور محض ایک نظریاتی خاکہ نہیں بلکہ ایک مکمل نظامِ حیات اور طرزِ زندگی کا نمونہ ہے جو زمان و مکاں کی قیود سے بالاتر ہے۔ اسوہ حسنہ کسی ایک شعبے میں تقلید کا نام نہیں، بلکہ خیر، فضل اور صلاح کے حاملین کی ہمہ جہت پیروی ہے، جس کا مرکز و محور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ بابرکات ہے ۔
اس تصور کی معنویت اس وقت کُھل کر سامنے آتی ہے جب ہم "اسوہ” کے دوہرے مفہوم پر غور کرتے ہیں—یعنی "نمونہ” اور "غمگسار”۔ یہ محض ایک اتفاق نہیں کہ قرآن کریم میں یہ اصطلاح جس آیت میں نبی اکرم ﷺ کے لیے استعمال کی گئی، وہ غزوہ احزاب کے انتہائی کٹھن اور خوفناک حالات کے تناظر میں نازل ہوئی۔ اس وقت مسلمانوں کو صرف ایک قائدانہ مثال کی ضرورت نہیں تھی، بلکہ ایک ایسی شخصیت کی بھی ضرورت تھی جس کا وجود ہی ان کے لیے ڈھارس اور تسلی کا باعث ہو۔ اس وقت، نبی اکرم ﷺ کی ثابت قدمی نہ صرف تقلید کے لیے ایک نمونہ تھی، بلکہ آپ ﷺ کا وجودِ مسعود اور غیر متزلزل ایمان خود اپنی ذات میں خوفزدہ دلوں کے لیے تسلی اور راحت کا سامان تھا ۔
قرآن مجید میں "أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ” کی ترکیب کو تین مقامات پر استعمال کیا گیا ہے۔ ایک مرتبہ اس کا اطلاق خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ پر ہوا ہے، جبکہ دو مرتبہ اسے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے پیروکاروں کے لیے لایا گیا ہے ۔
سورۃ الاحزاب، آیت ۲۱: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِیْرًاؕ
حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے ہر اس شخص کے لیے جو اللہ سے اور یوم آخرت سے امید رکھتا ہو، اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہو۔
(آسان قرآن)
اس آیت کا شانِ نزول 5 ہجری کا غزوہ احزاب ہے، جسے غزوہ خندق بھی کہتے ہیں۔ یہ اسلامی تاریخ کا ایک انتہائی نازک موڑ تھا جب کفارِ مکہ، یہود اور دیگر قبائل نے متحد ہو کر مدینہ پر حملہ کر دیا۔ مسلمانوں کی حالت انتہائی کسمپرسی کی تھی؛ بھوک، سردی اور دشمن کے خوف نے انہیں ہر طرف سے گھیرا ہوا تھا، دوسری طرف منافقین کا نفاق بھی عروج پر تھا ۔ ان حالات میں یہ آیت ان لوگوں کے لیے ایک امتحان بن کر نازل ہوئی جو جنگ کی شدت سے گھبرا کر پیچھے ہٹنا چاہتے تھے۔ انہیں یاد دلایا گیا کہ تمہارے سامنے اللہ کے رسول ﷺ کی ذات موجود ہے، جنہوں نے خود خندق کھودنے میں حصہ لیا، بھوک برداشت کی اور جان کی پرواہ کیے بغیر دین اسلام کی نصرت کے لیے میدان میں ڈٹے رہے ۔
سورۃ الممتحنہ، آیات کی آیات چار اور چھ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو اسوہ حسنہ قرار دیا گیا۔
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗ١ۚ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِهِمْ اِنَّا بُرَءٰٓؤُا مِنْكُمْ وَ مِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١٘ كَفَرْنَا بِكُمْ وَ بَدَا بَیْنَنَا وَ بَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَ الْبَغْضَآءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗۤ اِلَّا قَوْلَ اِبْرٰهِیْمَ لِاَبِیْهِ لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَ مَاۤ اَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللّٰهِ مِنْ شَیْءٍ١ؕ رَبَّنَا عَلَیْكَ تَوَكَّلْنَا وَ اِلَیْكَ اَنَبْنَا وَ اِلَیْكَ الْمَصِیْرُ
تمہارے لیے ابراہیم اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے، جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ : ہمارا تم سے اور اللہ کے سوا تم جن جن کی عبادت کرتے ہو، ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم تمہارے (عقائد کے) منکر ہیں، اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے دشمنی اور بغض پیدا ہوگیا ہے جب تک تم صرف ایک اللہ پر ایمان نہ لاؤ۔ البتہ ابراہیم نے اپنے باپ سے یہ ضرور کہا تھا کہ : میں آپ کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا ضرور مانگوں گا، اگرچہ اللہ کے سامنے میں آپ کو کوئی فائدہ پہنچانے کا کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ اے ہمارے پروردگار آپ ہی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے، اور آپ ہی کی طرف ہم رجوع ہوئے ہیں، اور آپ ہی کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے۔
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْهِمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ١ؕ وَ مَنْ یَّتَوَلَّ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ۠ ۧ
(مسلمانو) یقینا تمہارے لیے ان لوگوں کے طرز عمل میں بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور روز آخرت سے امید رکھتا ہو۔ اور جو شخص منہ موڑے تو (وہ یاد رکھے کہ) اللہ سب سے بےنیاز ہے، بذات خود قابل تعریف۔
ان آیات میں حضرت ابراہیمؑ کی اسوہ توحید پر غیر متزلزل استقامت ، شرک اور اس کے پیروکاروں سے مکمل بیزاری و براءۃ کو ایک نمونے کے طور پر پیش کیا گیا ۔ حضرت ابراہیمؑ کا اسوہ- عقیدے کی بنیاد، یعنی توحیدِ خالص، کو قائم کرتا ہے، جبکہ حضرت محمد ﷺ کا اسوہ- اس عقیدے پر مبنی ایک مکمل ضابطہ حیات فراہم کرتا ہے۔ گویا کوئی شخص نبی اکرم ﷺ کے اسوہ کی جامع پیروی اس وقت تک نہیں کر سکتا جب تک وہ حضرت ابراہیمؑ کے اسوہ، یعنی شرک سے مکمل بیزاری، پر مضبوطی سے قائم نہ ہو۔
سورۃ الاحزاب کی آیت اکیس نہ صرف نبی اکرم ﷺ کو اسوہ حسنہ قرار دیتی ہے بلکہ ان لوگوں کی صفات بھی بیان کرتی ہے جو اس نمونے سے حقیقی معنوں میں فیض یاب ہو سکتے ہیں۔حضور ﷺ کا اسوہ تو اپنی جگہ کامل و اکمل اور منبع ِرشد و ہدایت ہے لیکن اس سے استفادہ صرف وہی لوگ کرسکیں گے جو ان تین شرائط پر پورا اترتے ہوں، یہ شرائط دراصل وہ روحانی اور فکری بنیادیں ہیں جن پر اتباعِ رسول کی عمارت قائم ہے ۔
۔ اللہ کی امید (لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ): اس سے مراد محض ایک آرزو نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شوق، اس کی رحمت کی پوری اور حقیقی امید، اور اس کی رضا کا سچا طالب ہونا ہے ، یعنی الله ہی اس کا محبوب، مطلوب و مقصود ہو، یہ امید انسان کو عمل پر اکساتی ہے اور اسے ہر قدم پر اللہ کی رضا و خوشنودی پر مجبور کرتی ہے۔
۔ یومِ آخرت کی امید (وَالْيَوْمَ الْآخِرَ): اس سے مراد روزِ قیامت پر پختہ اور غیر متزلزل یقین ہے۔ یہ عقیدہ کہ ایک دن اللہ کے حضور پیش ہو کر زندگی کے ہر عمل کا حساب دینا ہے، انسان کو ذمہ دار بناتا ہے اور اسے گناہوں سے روک کر نیکی کی طرف راغب کرتا ہے ۔
۔ کثرتِ ذکر (وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا): اس سے مراد صرف زبان سے تسبیح پڑھنا نہیں، بلکہ ہر حال میں، ہر معاملے میں اللہ کو یاد رکھنا، اس کے احکامات کو پیشِ نظر رکھنا اور اپنے قلب و ذہن کو اس کی یاد سے منور رکھنا ہے ۔ جو شخص کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہے، اس کے لیے نبی ﷺ کے نقشِ قدم پر چلنا آسان ہو جاتا ہے کیونکہ اس کا ہر عمل اللہ کی رضا کے تابع ہوتا ہے۔
اسوہ حسنہ کسی ایک شعبے میں کمال کا نام نہیں، بلکہ زندگی کے تمام دائروں—روحانی، ذاتی، عائلی اور عوامی—میں ایک جامع توازن کا نام ہے۔ یہی جامع توازن نبوی نمونے کی عظمت اور کاملیت کا راز ہے، جو یہ سکھاتا ہے کہ روحانیت کے لیے دنیا کو ترک کرنا ضروری نہیں اور دنیاوی قیادت کے لیے اخلاقی اصولوں پر سمجھوتہ کرنا لازم نہیں۔
درحقیقت اسوہ حسنہ، اسلام کا مرکزی اور محوری تصور ہے جو دین کو محض عقائد اور نظریات کے مجموعے سے نکال کر ایک زندہ، متحرک اور قابلِ عمل حقیقت میں بدل دیتا ہے۔ یہ نبی اکرم ﷺ کی جامع و کامل شخصیت کا وہ عکس ہے جو ایک فرد کی روحانی اصلاح سے لے کر ایک عالمی تہذیب کی تشکیل تک ہر سطح پر غیر معمولی رہنمائی فراہم کرتا ہے، ایک ایسا ابدی نمونہ، جو زمان و مکاں کی قیود سے آزاد ہے اور ہر دور کے انسان کو اس کے پیچیدہ مسائل کا حل فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کی بنیاد اللہ کی وحی پر ہے، اس کی روح امت کے لیے رحمت اور محبت ہے۔
یہی رحمت و محبت ، نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ اقدس کا ایک نمایاں ترین پہلو ہے۔ اپنی امت کے ساتھ آپ ﷺ کی بے مثال، لازوال اور بے لوث محبت، محض ایک جذباتی تعلق نہیں، بلکہ آپ ﷺ کی پوری دعوت، جدوجہد اور ہر عمل کے پیچھے کارفرما ایک بنیادی محرک ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں خود اپنے محبوب نبی ﷺ کی اس صفت کو بیان فرمایا ہے۔
آپ ﷺ کو نہ صرف "رحمۃ للعالمین” (تمام جہانوں کے لیے رحمت) (الانبیاء: 107) کا لقب عطا کیا گیا
بلکہ خاص طور پر اہل ایمان کے لیے آپ ﷺ کی شفقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا
"بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ”
(وہ مومنوں پر نہایت شفیق، بے حد مہربان ہیں)
(التوبہ: 128) 30۔
اسی آیت میں فرمانِ الہی ہے۔
"عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ” (تمہاری مشقت اور تکلیف ان پر بہت گراں گزرتی ہے۔
یہ آیت آپ ﷺ کی اس شدید قلبی بے چینی اور کرب کو ظاہر کرتی ہے جو امت کو ذرا سی بھی تکلیف یا مشقت میں دیکھ کر آپ ﷺ کو ہوتی تھی۔ آپ ﷺ کی پوری زندگی کا محور ہی امت کی ہدایت، بھلائی اور اخروی نجات کی فکر تھی ۔
سیرتِ طیبہ کے اوراق امت کے ساتھ آپ ﷺ کی اس محبت کے، لازوال واقعات سے بھرے پڑے ہیں۔
حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے ، ایک مرتبہ آپ ﷺ نے قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا (جو انہوں نے اپنی امت کے لیے کی) اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا (جو انہوں نے اپنی امت کے لیے کی) کی تلاوت فرمائی۔ ان آیات کو پڑھ کر آپ ﷺ پر رقت طاری ہو گئی اور آپ ﷺ ہاتھ اٹھا کر رونے لگے اور بار بار فرمانے لگے: "اَللّٰھُمَّ اُمَّتِیْ، اُمَّتِیْ” (اے اللہ! میری امت، میری امت)۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بھیجا اور فرمایا کہ جا کر میرے محبوب سے پوچھو کہ وہ کیوں رو رہے ہیں، حالانکہ اللہ سبحانہ و تعالی سب کچھ جانتا ہے۔ جب جبرائیلؑ نے پوچھا تو آپ ﷺ نے اپنی امت کی مغفرت کی فکر کا اظہار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے جبرائیلؑ کو واپس بھیجا اور یہ خوشخبری سنائی: "اے محمد! ہم آپ کو آپ کی امت کے معاملے میں راضی کر دیں گے اور آپ کو ہرگز غمگین نہیں کریں گے”
آپ ﷺ کا یہ فرمان بھی آپ کی امت سے محبت اور قربانی کا سب سے بڑا ثبوت ہے
مفہوم اس کا یہ ہے کہ "ہر نبی کو ایک ایسی دعا کا اختیار دیا گیا تھا جو یقیناً قبول کی جاتی ہے۔ ہر نبی نے اپنی وہ دعا دنیا میں ہی مانگ لی، لیکن میں نے اپنی اس دعا کو قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لیے بچا کر رکھا ہے”
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ روایت کرتی ہیں کہ ایک بار میں نے آپ ﷺ کو خوشگوار موڈ میں دیکھ کر عرض کیا: "یا رسول اللہ! میرے لیے دعا فرما دیجیے”۔ آپ ﷺ نے دعا فرمائی:
"اے اللہ! عائشہ کے اگلے پچھلے، ظاہر اور پوشیدہ تمام گناہ معاف فرما دے”۔
یہ دعا سن کر حضرت عائشہؓ خوشی سے ہنسنے لگیں، یہاں تک کہ ان کا سر آپ ﷺ کی گود میں آ گرا۔ آپ ﷺ نے پوچھا: "کیا میری دعا سے تمہیں خوشی ہوئی؟” انہوں نے عرض کیا: "بھلا آپ کی دعا سے مجھے خوشی کیوں نہ ہوگی!” اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: "خدا کی قسم! یہ میری وہ دعا ہے جو میں ہر نماز میں اپنی ساری امت کے لیے کرتا ہوں”
جب آپ ﷺ تبلیغ کے لیے طائف تشریف لے گئے تو وہاں کے لوگوں نے آپ ﷺ کو جھٹلایا، آپ کا مذاق اڑایا اور آپ پر اتنے پتھر برسائے کہ آپ ﷺ کے نعلین مبارک خون سے بھر گئے۔ اس شدید تکلیف کے عالم میں جب پہاڑوں کا فرشتہ حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اگر آپ حکم دیں تو میں ان دو پہاڑوں کے درمیان اس بستی کو پیس دوں، تو رحمت للعالمین ﷺ نے منع فرما دیا اور ان کے حق میں دعا فرمائی: "نہیں، بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسلوں سے ایسے لوگ پیدا فرمائے گا جو صرف ایک اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے” آپ ﷺ کی ، اپنی امت سے محبت صرف اپنے زمانے کے لوگوں تک محدود نہ تھی، بلکہ قیامت تک آنے والی اپنی پوری امت کے لیے تھی۔
ایک موقع پر آپ ﷺ نے اپنے صحابہ کرامؓ سے فرمایا: "میرا دل چاہتا ہے کہ کاش میں اپنے بھائیوں سے ملتا!” صحابہ کرامؓ نے حیرت سے عرض کیا: "یا رسول اللہ! کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں؟” آپ ﷺ نے فرمایا: "تم تو میرے صحابہ ہو۔ میرے بھائی وہ لوگ ہیں جو میرے بعد آئیں گے، وہ مجھ پر ایمان لائیں گے حالانکہ انہوں نے مجھے دیکھا تک نہیں ہوگا”
یہ حدیث ان تمام مسلمانوں کے لیے آپ ﷺ کے دل میں موجود شدید محبت اور اشتیاق کا اظہار ہے جو آپ ﷺ کے بعد اس دنیا میں آئے۔
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا اسوہ حسنہ محض اصول و ضوابط کا ایک خشک مجموعہ نہیں ہے۔ اس اسوہ کی روح امت کے لیے آپ ﷺ کی بے پایاں محبت اور شفقت ہے۔ آپ ﷺ نے طائف کا ظلم اس لیے برداشت کیا کیونکہ آپ کو ان کی آنے والی نسلوں سے محبت تھی ۔
آپ ﷺ نے دینی احکامات میں آسانی اس لیے پیدا فرمائی تاکہ امت پر بوجھ نہ پڑے ۔
آپ ﷺ نے اپنی خاص دعا کو اس لیے محفوظ رکھا کیونکہ آپ کو امت کی اخروی نجات کی سب سے زیادہ فکر تھی ۔
لہٰذا، اسوہ حسنہ کو اس کی حقیقی روح کے ساتھ سمجھنے کے لیے اس بے مثال محبت کو سمجھنا ناگزیر ہے، جو اس پورے نبوی نمونے کو ایک رحیمانہ ہدایت میں بدل دیتی ہے۔
اسوہ حسنہ کی دعوت پر امت نے ہر دور میں مختلف انداز میں ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔ اس کا بہترین نمونہ صحابہ کرامؓ کی جماعت ہے، جبکہ موجودہ صورتحال ایک لمحہ فکریہ کی متقاضی ہے۔
صحابہ کرامؓ کی جماعت نبی اکرم ﷺ سے محبت اور آپ ﷺ کے اسوہ کی پیروی کا اعلیٰ ترین معیار ہے۔ ان کی محبت محض رسمی نہیں بلکہ والہانہ تھی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جب پوچھا گیا کہ آپ لوگوں کو نبی ﷺ سے کیسی محبت تھی، تو انہوں نے فرمایا: "خدا کی قسم! آپ ﷺ ہمیں اپنے مال، اپنی اولاد، اپنے والدین اور سخت پیاس کے وقت ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ عزیز تھے” صحابہ کرامؓ نے آپ ﷺ کے ایک اشارے پر اپنی جانیں، مال اور گھر بار سب کچھ قربان کر دیا ۔
صحابہ کرامؓ کا اتباع صرف عبادات تک محدود نہ تھا۔ وہ آپ ﷺ کے ہر قول، ہر فعل، اور ہر ادا کو اپنے لیے قانون سمجھتے تھے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو، کھانے پینے کے آداب سے ہو یا روزمرہ کے معمولات سے، ان کا پختہ یقین تھا کہ دنیا اور آخرت کی کامیابی کا واحد راستہ نبی اکرم ﷺ کی غیر مشروط اور کامل پیروی میں ہے۔
نبی اکرم ﷺ کی پیروی محض ایک مستحب عمل نہیں، بلکہ دین کی بنیاد اور ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔
قرآن حکیم میں درجنوں آیات ایسی ہیں جو اطاعتِ رسول کو فرض قرار دیتی ہیں اور اسے عین اطاعتِ الٰہی قرار دیتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ”
(جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے درحقیقت اللہ کی اطاعت کی)
(النساء: 80)۔
سنت قرآن کی زندہ اور عملی تشریح ہے۔ سنت کے بغیر قرآن کے بنیادی احکامات، جیسے نماز، زکوٰۃ اور حج، کی ادائیگی کا طریقہ معلوم نہیں ہو سکتا ،سنت کو چھوڑ کر صرف قرآن پر عمل کرنے کا دعویٰ درحقیقت خود قرآن کے حکم کی نفی ہے۔ فتنوں کے دور میں سنت کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے آپ ﷺ نے پیشین گوئی فرمائی تھی کہ جب امت میں بگاڑ پیدا ہو جائے گا اور فتنے عام ہو جائیں گے، اس وقت میری سنت پر مضبوطی سے عمل کرنے والے کو عظیم اجر ملے گا ، اگرچہ اس اجر کی مقدار (پچاس یا سو شہیدوں کا ثواب) سے متعلق روایات کی صحت پر محدثین نے کلام کیا ہے، لیکن اس عمل کی عمومی فضیلت اور اہمیت متفق علیہ ہے ۔
آج اگر امتِ مسلمہ کی اجتماعی حالت کا جائزہ لیا جائے تو محبتِ رسول ﷺ کے دعوے اور عملی زندگی کے حقائق میں ایک واضح تضاد نظر آتا ہے۔ آج امت نبی ﷺ کے نام پر جان قربان کرنے کو تیار ہے، میلاد کی محفلیں بڑے جوش و خروش سے منعقد کی جاتی ہیں، لیکن جب سیاست، معیشت، معاشرت اور اخلاقیات میں اسوہ حسنہ پر عمل کرنے کی بات آتی ہے تو اکثریت اس سے پہلو تہی کرتی نظر آتی ہے۔ اس دوری کے متعدد اسباب ہیں، جن میں مغربی تہذیب سے مرعوبیت، دین کے جامع تصور سے لاعلمی، دنیا پرستی کا غلبہ، اور اسوہ حسنہ کو صرف عبادات، ظاہری وضع قطع اور چند رسومات تک محدود سمجھ لینا شامل ہے۔ آج ہمیں اپنے ہادی و راہنما ، محسنِ انسانیت اور اپنی نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے وہ محبت نہیں رہی جو درحقیقت ہونا چاہیے۔
اس خلیج کو پر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ
- سیرتِ نبوی کا مطالعہ سطحی اور رسمی انداز میں نہیں، بلکہ عصری شعور کے ساتھ کیا جائے تاکہ اسے آج کے مسائل کے حل کے لیے ایک عملی نمونے کے طور پر سمجھا جا سکے۔
- انفرادی اور اجتماعی سطح پر سنت کو زندگی کے تمام شعبوں میں نافذ کرنے کی مخلصانہ اور منظم کوشش کی جائے۔
- علماء، دانشور اور تعلیمی ادارے اسوہ حسنہ کو دورِ جدید کے چیلنجز کے ایک قابلِ عمل اور مؤثر حل کے طور پر پیش کریں۔
امت کا ردِ عمل دراصل اس کی روحانی صحت کا پیمانہ ہے۔ صحابہ کرامؓ کی کامیابی کا راز اسوہ حسنہ سے ان کی مکمل وابستگی میں تھا، اور آج امت کے مسائل کی بنیادی وجہ اسی مرکز سے دوری ہے۔ چنانچہ اشد ضرورت ہے کہ اسوہ حسنہ کی صحیح تفہیم کے لیے اسوہ حسنہ کی اصل روح کو سمجھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے ، تاکہ امت کی نشاۃِ ثانیہ کا راستہ ہموار ہو سکے۔

