اسوہ حسنہ: نبوی نمونہ کی جامعیت اور دورِ حاضر میں اس کی معنویت

سبق نمبر 1. 

 اسوہ حسنہ کا قرآنی و اصطلاحی مفہوم

اسلامی فکر کا مرکزی نقطہ اور مسلمانوں کی انفرادی و اجتماعی زندگی کا محور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ بابرکات ہے۔ قرآن حکیم نے اس ذاتِ بابرکات کو انسانیت کے لیے  بہترین اور کامل نمونہ قرار دیا ہے، جسے "اسوہ حسنہ” کہا جاتا ہے۔ 

عربی لغت میں لفظ "اُسوہ”  کے بنیادی معنی "قدوۃ” کے ہیں،  پیشوا، راہنما، امام یا نمونہ 

اور  لفظ "حسنہ”   ہر اس شے پر دلالت کرتا ہے جو اچھی، عمدہ، دلکش اور خوبصورت ہو ۔ دونوں لفظ مل کر   "اسوہ حسنہ” کی ترکیب بناتے ہیں ، جس سے مراد ایک ایسا کامل، بہترین اور جامع نمونہ عمل ،  جو ہر اعتبار سے بے عیب اور قابلِ تقلید ہو۔

یہ تصور محض ایک نظریاتی خاکہ نہیں بلکہ ایک مکمل نظامِ حیات اور طرزِ زندگی کا نمونہ ہے جو زمان و مکاں کی قیود سے بالاتر ہے۔ اسوہ حسنہ   کسی ایک شعبے میں تقلید کا نام نہیں، بلکہ خیر، فضل اور صلاح کے حاملین کی ہمہ جہت پیروی ہے، جس کا مرکز و محور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ بابرکات ہے ۔

اس تصور کی معنویت اس وقت کُھل کر سامنے آتی ہے جب ہم "اسوہ” کے دوہرے مفہوم پر غور کرتے ہیں—یعنی "نمونہ” اور "غمگسار”۔ یہ محض ایک اتفاق نہیں کہ قرآن کریم  میں  یہ اصطلاح جس آیت میں نبی اکرم ﷺ کے لیے استعمال کی گئی، وہ غزوہ احزاب کے انتہائی کٹھن اور خوفناک حالات کے تناظر میں نازل ہوئی۔ اس وقت مسلمانوں کو صرف ایک قائدانہ مثال کی ضرورت نہیں تھی، بلکہ ایک ایسی شخصیت کی بھی ضرورت تھی جس کا وجود ہی ان کے لیے ڈھارس اور تسلی کا باعث ہو۔ اس وقت، نبی اکرم ﷺ کی ثابت قدمی نہ صرف تقلید کے لیے ایک نمونہ تھی، بلکہ آپ ﷺ کا وجودِ مسعود اور غیر متزلزل ایمان خود اپنی ذات میں خوفزدہ دلوں کے لیے   تسلی اور راحت کا سامان تھا ۔

قرآن مجید میں  "أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ” کی ترکیب کو تین مقامات پر استعمال کیا گیا ہے۔  ایک مرتبہ اس کا اطلاق خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ پر ہوا ہے، جبکہ دو مرتبہ اسے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے پیروکاروں کے لیے لایا گیا ہے ۔

سورۃ الاحزاب، آیت ۲۱: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِیْرًاؕ

حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے ہر اس شخص کے لیے جو اللہ سے اور یوم آخرت سے امید رکھتا ہو، اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہو۔ 

(آسان قرآن) 

اس آیت کا شانِ نزول 5 ہجری کا غزوہ احزاب ہے، جسے غزوہ خندق بھی کہتے ہیں۔ یہ اسلامی تاریخ کا ایک انتہائی نازک موڑ تھا جب کفارِ مکہ، یہود اور دیگر قبائل نے متحد ہو کر مدینہ پر حملہ کر دیا۔ مسلمانوں کی حالت انتہائی کسمپرسی کی تھی؛ بھوک، سردی اور دشمن کے خوف نے انہیں ہر طرف سے گھیرا ہوا تھا، دوسری طرف  منافقین کا نفاق بھی عروج پر  تھا ۔ ان حالات میں یہ آیت ان لوگوں کے لیے ایک امتحان  بن کر نازل ہوئی جو جنگ کی شدت سے گھبرا کر پیچھے ہٹنا چاہتے تھے۔ انہیں یاد دلایا گیا کہ تمہارے سامنے اللہ کے رسول ﷺ کی ذات موجود ہے، جنہوں نے خود خندق کھودنے میں حصہ لیا، بھوک برداشت کی اور جان کی پرواہ کیے بغیر دین اسلام  کی نصرت کے لیے میدان میں ڈٹے رہے ۔

سورۃ الممتحنہ، آیات  کی آیات چار اور چھ  میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو اسوہ حسنہ قرار دیا گیا۔

قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗ١ۚ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِهِمْ اِنَّا بُرَءٰٓؤُا مِنْكُمْ وَ مِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١٘ كَفَرْنَا بِكُمْ وَ بَدَا بَیْنَنَا وَ بَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَ الْبَغْضَآءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗۤ اِلَّا قَوْلَ اِبْرٰهِیْمَ لِاَبِیْهِ لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَ مَاۤ اَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللّٰهِ مِنْ شَیْءٍ١ؕ رَبَّنَا عَلَیْكَ تَوَكَّلْنَا وَ اِلَیْكَ اَنَبْنَا وَ اِلَیْكَ الْمَصِیْرُ

تمہارے لیے ابراہیم اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے، جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ : ہمارا تم سے اور اللہ کے سوا تم جن جن کی عبادت کرتے ہو، ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم تمہارے (عقائد کے) منکر ہیں، اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے دشمنی اور بغض پیدا ہوگیا ہے جب تک تم صرف ایک اللہ پر ایمان نہ لاؤ۔ البتہ ابراہیم نے اپنے باپ سے یہ ضرور کہا تھا کہ : میں آپ کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا ضرور مانگوں گا، اگرچہ اللہ کے سامنے میں آپ کو کوئی فائدہ پہنچانے کا کوئی اختیار نہیں رکھتا۔  اے ہمارے پروردگار آپ ہی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے، اور آپ ہی کی طرف ہم رجوع ہوئے ہیں، اور آپ ہی کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے۔

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْهِمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ١ؕ وَ مَنْ یَّتَوَلَّ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ۠   ۧ

(مسلمانو) یقینا تمہارے لیے ان لوگوں کے طرز عمل میں بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور روز آخرت سے امید رکھتا ہو۔ اور جو شخص منہ موڑے تو (وہ یاد رکھے کہ) اللہ سب سے بےنیاز ہے، بذات خود قابل تعریف۔

ان آیات میں حضرت ابراہیمؑ  کی اسوہ توحید پر غیر متزلزل استقامت ،  شرک اور اس کے پیروکاروں سے مکمل بیزاری  و براءۃ کو ایک نمونے کے طور پر پیش کیا گیا ۔  حضرت ابراہیمؑ کا اسوہ-  عقیدے کی بنیاد، یعنی توحیدِ خالص، کو قائم کرتا ہے، جبکہ حضرت محمد ﷺ کا اسوہ- اس عقیدے پر مبنی ایک مکمل ضابطہ حیات فراہم کرتا ہے۔ گویا کوئی شخص نبی اکرم ﷺ کے اسوہ کی جامع پیروی اس وقت تک نہیں کر سکتا جب تک وہ حضرت ابراہیمؑ کے اسوہ، یعنی شرک سے مکمل بیزاری، پر مضبوطی سے قائم نہ ہو۔

سورۃ الاحزاب کی آیت اکیس نہ صرف نبی اکرم ﷺ کو اسوہ حسنہ قرار دیتی ہے بلکہ ان لوگوں کی صفات بھی بیان کرتی ہے جو اس نمونے سے حقیقی معنوں میں فیض یاب ہو سکتے ہیں۔حضور ﷺ کا اسوہ تو اپنی جگہ کامل و اکمل اور منبع ِرشد و ہدایت ہے لیکن اس سے استفادہ صرف وہی لوگ کرسکیں گے جو ان تین شرائط پر پورا اترتے ہوں، یہ شرائط دراصل وہ روحانی اور فکری بنیادیں ہیں جن پر اتباعِ رسول کی عمارت قائم  ہے ۔

۔ اللہ کی امید (لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ): اس سے مراد محض ایک  آرزو نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شوق، اس کی رحمت کی پوری اور حقیقی امید، اور اس کی رضا کا سچا طالب ہونا ہے ، یعنی الله ہی اس کا محبوب، مطلوب و مقصود ہو،   یہ امید انسان کو عمل پر اکساتی ہے اور اسے ہر قدم پر اللہ کی رضا و  خوشنودی   پر مجبور کرتی ہے۔

۔ یومِ آخرت کی امید (وَالْيَوْمَ الْآخِرَ): اس سے مراد روزِ قیامت پر پختہ اور غیر متزلزل یقین ہے۔ یہ عقیدہ کہ ایک دن اللہ کے حضور پیش ہو کر زندگی کے ہر عمل کا حساب دینا ہے، انسان کو ذمہ دار بناتا ہے اور اسے گناہوں سے روک کر نیکی کی طرف راغب کرتا ہے ۔

۔ کثرتِ ذکر (وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا): اس سے مراد صرف زبان سے تسبیح پڑھنا نہیں، بلکہ ہر حال میں، ہر معاملے میں اللہ   کو یاد رکھنا، اس کے احکامات کو پیشِ نظر رکھنا اور اپنے قلب و ذہن کو اس کی یاد سے منور رکھنا ہے ۔ جو شخص کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہے، اس کے لیے نبی ﷺ کے نقشِ قدم پر چلنا آسان ہو جاتا ہے کیونکہ اس کا ہر عمل اللہ کی رضا کے تابع ہوتا ہے۔

اسوہ حسنہ کسی ایک شعبے میں کمال کا نام نہیں، بلکہ زندگی کے تمام دائروں—روحانی، ذاتی، عائلی اور عوامی—میں ایک جامع توازن  کا نام ہے۔ یہی جامع توازن    نبوی نمونے کی عظمت اور کاملیت کا راز ہے، جو یہ سکھاتا ہے کہ روحانیت کے لیے دنیا کو ترک کرنا ضروری نہیں اور دنیاوی قیادت کے لیے اخلاقی اصولوں پر سمجھوتہ کرنا لازم نہیں۔ 

درحقیقت اسوہ حسنہ،  اسلام کا مرکزی اور محوری تصور ہے جو دین کو محض عقائد اور نظریات کے مجموعے سے نکال کر ایک زندہ، متحرک اور قابلِ عمل حقیقت میں بدل دیتا ہے۔ یہ نبی اکرم ﷺ کی جامع و  کامل شخصیت کا وہ عکس ہے جو ایک فرد کی روحانی اصلاح سے لے کر ایک عالمی تہذیب کی تشکیل تک ہر سطح پر غیر معمولی رہنمائی فراہم کرتا ہے، ایک ایسا ابدی نمونہ،  جو زمان و مکاں کی قیود سے آزاد ہے اور ہر دور کے انسان کو اس کے پیچیدہ مسائل کا حل فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کی بنیاد اللہ کی وحی پر ہے، اس کی روح امت کے لیے رحمت اور محبت ہے۔

یہی رحمت و محبت ، نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ اقدس کا ایک نمایاں ترین پہلو ہے۔  اپنی امت کے ساتھ آپ ﷺ کی بے مثال، لازوال اور بے لوث محبت، محض ایک جذباتی تعلق نہیں، بلکہ آپ ﷺ کی پوری دعوت، جدوجہد اور ہر عمل کے پیچھے کارفرما ایک بنیادی محرک ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں خود اپنے محبوب نبی ﷺ کی اس صفت کو بیان فرمایا ہے۔

 آپ ﷺ کو نہ صرف "رحمۃ للعالمین” (تمام جہانوں کے لیے رحمت) (الانبیاء: 107) کا لقب عطا کیا گیا 

 بلکہ خاص طور پر اہل ایمان کے لیے آپ ﷺ کی شفقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا

 "بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ” 

(وہ مومنوں پر نہایت شفیق، بے حد مہربان ہیں)

 (التوبہ: 128) 30۔

اسی آیت میں فرمانِ الہی ہے۔

 "عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ” (تمہاری مشقت اور تکلیف ان پر بہت گراں گزرتی ہے۔

یہ آیت آپ ﷺ کی اس شدید قلبی بے چینی اور کرب کو ظاہر کرتی ہے جو امت کو ذرا سی بھی تکلیف یا مشقت میں دیکھ کر آپ ﷺ کو ہوتی تھی۔ آپ ﷺ کی پوری زندگی کا محور ہی امت کی ہدایت، بھلائی اور اخروی نجات کی فکر تھی ۔

سیرتِ طیبہ کے اوراق امت کے ساتھ آپ ﷺ کی  اس محبت کے،  لازوال واقعات سے بھرے پڑے ہیں۔

حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے ،  ایک مرتبہ آپ ﷺ نے قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا (جو انہوں نے اپنی امت کے لیے کی) اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا (جو انہوں نے اپنی امت کے لیے کی) کی تلاوت فرمائی۔ ان آیات کو پڑھ کر آپ ﷺ پر رقت طاری ہو گئی اور آپ ﷺ ہاتھ اٹھا کر رونے لگے اور بار بار فرمانے لگے: "اَللّٰھُمَّ اُمَّتِیْ، اُمَّتِیْ” (اے اللہ! میری امت، میری امت)۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بھیجا اور فرمایا کہ جا کر میرے محبوب سے پوچھو کہ وہ کیوں رو رہے ہیں، حالانکہ اللہ سبحانہ و تعالی  سب کچھ جانتا ہے۔ جب جبرائیلؑ نے پوچھا تو آپ ﷺ نے اپنی امت کی مغفرت کی فکر کا اظہار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے جبرائیلؑ کو واپس بھیجا اور یہ خوشخبری سنائی: "اے محمد! ہم آپ کو آپ کی امت کے معاملے میں راضی کر دیں گے اور آپ کو ہرگز غمگین نہیں کریں گے”

 آپ ﷺ کا یہ فرمان بھی آپ کی امت سے محبت اور قربانی کا سب سے بڑا ثبوت ہے

مفہوم اس کا یہ ہے کہ  "ہر نبی کو ایک ایسی دعا کا اختیار دیا گیا تھا جو یقیناً قبول کی جاتی ہے۔ ہر نبی نے اپنی وہ دعا دنیا میں ہی مانگ لی، لیکن میں نے اپنی اس دعا کو قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لیے بچا کر رکھا ہے” 

 ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ روایت کرتی ہیں کہ ایک بار میں نے آپ ﷺ کو خوشگوار موڈ میں دیکھ کر عرض کیا: "یا رسول اللہ! میرے لیے دعا فرما دیجیے”۔ آپ ﷺ نے دعا فرمائی:

 "اے اللہ! عائشہ کے اگلے پچھلے، ظاہر اور پوشیدہ تمام گناہ معاف فرما دے”۔

 یہ دعا سن کر حضرت عائشہؓ خوشی سے ہنسنے لگیں، یہاں تک کہ ان کا سر آپ ﷺ کی گود میں آ گرا۔ آپ ﷺ نے پوچھا: "کیا میری دعا سے تمہیں خوشی ہوئی؟” انہوں نے عرض کیا: "بھلا آپ کی دعا سے مجھے خوشی کیوں نہ ہوگی!” اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: "خدا کی قسم! یہ میری وہ دعا ہے جو میں ہر نماز میں اپنی ساری امت کے لیے کرتا ہوں” 

 جب آپ ﷺ تبلیغ کے لیے طائف تشریف لے گئے تو وہاں کے لوگوں نے آپ ﷺ کو جھٹلایا، آپ کا مذاق اڑایا اور آپ پر اتنے پتھر برسائے کہ آپ ﷺ کے نعلین مبارک خون سے بھر گئے۔ اس شدید تکلیف کے عالم میں جب پہاڑوں کا فرشتہ حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اگر آپ حکم دیں تو میں ان دو پہاڑوں کے درمیان اس بستی کو پیس دوں، تو رحمت للعالمین ﷺ نے منع فرما دیا اور ان کے حق میں دعا فرمائی: "نہیں، بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسلوں سے ایسے لوگ پیدا فرمائے گا جو صرف ایک اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے”  آپ ﷺ کی ، اپنی امت سے  محبت صرف اپنے زمانے کے لوگوں تک محدود نہ تھی، بلکہ قیامت تک آنے والی اپنی پوری امت کے لیے تھی۔

ایک موقع پر آپ ﷺ نے اپنے صحابہ کرامؓ سے فرمایا: "میرا دل چاہتا ہے کہ کاش میں اپنے بھائیوں سے ملتا!” صحابہ کرامؓ نے حیرت سے عرض کیا: "یا رسول اللہ! کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں؟” آپ ﷺ نے فرمایا: "تم تو میرے صحابہ ہو۔ میرے بھائی وہ لوگ ہیں جو میرے بعد آئیں گے، وہ مجھ پر ایمان لائیں گے حالانکہ انہوں نے مجھے دیکھا تک نہیں ہوگا” 

یہ حدیث ان تمام مسلمانوں کے لیے آپ ﷺ کے دل میں موجود شدید محبت اور اشتیاق کا اظہار ہے جو آپ ﷺ کے بعد اس دنیا میں آئے۔

اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ  نبی اکرم ﷺ کا اسوہ حسنہ محض اصول و ضوابط کا ایک خشک مجموعہ نہیں ہے۔ اس اسوہ کی روح  امت کے لیے آپ ﷺ کی بے پایاں محبت اور شفقت ہے۔ آپ ﷺ نے طائف کا ظلم اس لیے برداشت کیا کیونکہ آپ کو ان کی آنے والی نسلوں سے محبت تھی ۔

 آپ ﷺ نے دینی احکامات میں آسانی اس لیے پیدا فرمائی تاکہ امت پر بوجھ نہ پڑے ۔

 آپ ﷺ نے اپنی خاص دعا کو اس لیے محفوظ رکھا کیونکہ آپ کو امت کی اخروی نجات کی سب سے زیادہ فکر تھی ۔

 لہٰذا، اسوہ حسنہ کو اس کی حقیقی روح کے ساتھ سمجھنے کے لیے اس بے مثال محبت کو سمجھنا ناگزیر ہے، جو اس پورے نبوی نمونے کو ایک رحیمانہ ہدایت میں بدل دیتی ہے۔

اسوہ حسنہ کی دعوت پر امت نے ہر دور میں مختلف انداز میں ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔ اس کا بہترین نمونہ صحابہ کرامؓ کی جماعت ہے، جبکہ موجودہ صورتحال ایک لمحہ فکریہ کی متقاضی ہے۔

صحابہ کرامؓ کی جماعت نبی اکرم ﷺ سے محبت اور آپ ﷺ کے اسوہ کی پیروی کا اعلیٰ ترین معیار ہے۔ ان کی محبت محض رسمی نہیں بلکہ والہانہ تھی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جب پوچھا گیا کہ آپ لوگوں کو نبی ﷺ سے کیسی محبت تھی، تو انہوں نے فرمایا: "خدا کی قسم! آپ ﷺ ہمیں اپنے مال، اپنی اولاد، اپنے والدین اور سخت پیاس کے وقت ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ عزیز تھے”  صحابہ کرامؓ نے آپ ﷺ کے ایک اشارے پر اپنی جانیں، مال اور گھر بار سب کچھ قربان کر دیا ۔

 صحابہ کرامؓ کا اتباع صرف عبادات تک محدود نہ تھا۔ وہ آپ ﷺ کے ہر قول، ہر فعل، اور ہر ادا کو اپنے لیے قانون سمجھتے تھے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو، کھانے پینے کے آداب سے ہو یا روزمرہ کے معمولات سے، ان کا پختہ یقین تھا کہ دنیا اور آخرت کی کامیابی کا واحد راستہ نبی اکرم ﷺ کی غیر مشروط اور کامل پیروی میں ہے۔

نبی اکرم ﷺ کی پیروی محض ایک مستحب عمل نہیں، بلکہ دین کی بنیاد اور ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔

 قرآن حکیم میں درجنوں آیات ایسی ہیں جو اطاعتِ رسول کو فرض قرار دیتی ہیں اور اسے عین اطاعتِ الٰہی قرار دیتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

 "مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ”

 (جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے درحقیقت اللہ کی اطاعت کی)

 (النساء: 80)۔

 سنت قرآن کی زندہ اور عملی تشریح ہے۔ سنت کے بغیر قرآن کے بنیادی احکامات، جیسے نماز، زکوٰۃ اور حج، کی ادائیگی کا طریقہ معلوم نہیں ہو سکتا ،سنت کو چھوڑ کر صرف قرآن پر عمل کرنے کا دعویٰ درحقیقت خود قرآن کے حکم کی نفی ہے۔ فتنوں کے دور میں سنت کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے  آپ ﷺ نے پیشین گوئی فرمائی تھی کہ جب امت میں بگاڑ پیدا ہو جائے گا اور فتنے عام ہو جائیں گے، اس وقت میری سنت پر مضبوطی سے عمل کرنے والے کو عظیم اجر ملے گا ، اگرچہ اس اجر کی مقدار (پچاس یا سو شہیدوں کا ثواب) سے متعلق روایات کی صحت پر محدثین نے کلام کیا ہے، لیکن اس عمل کی عمومی فضیلت اور اہمیت متفق علیہ ہے ۔

آج اگر امتِ مسلمہ کی اجتماعی حالت کا جائزہ لیا جائے تو محبتِ رسول ﷺ کے دعوے اور عملی زندگی کے حقائق میں ایک واضح تضاد نظر آتا ہے۔ آج امت نبی ﷺ کے نام پر جان قربان کرنے کو تیار ہے، میلاد کی محفلیں بڑے جوش و خروش سے منعقد کی جاتی ہیں، لیکن جب سیاست، معیشت، معاشرت اور اخلاقیات میں اسوہ حسنہ پر عمل کرنے کی بات آتی ہے تو اکثریت اس سے پہلو تہی کرتی نظر آتی ہے۔ اس دوری کے متعدد اسباب ہیں، جن میں مغربی تہذیب سے مرعوبیت، دین کے جامع تصور سے لاعلمی، دنیا پرستی کا غلبہ، اور اسوہ حسنہ کو صرف عبادات، ظاہری وضع قطع اور چند رسومات تک محدود سمجھ لینا شامل ہے۔ آج ہمیں اپنے ہادی و راہنما ، محسنِ انسانیت اور اپنی نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے وہ محبت نہیں رہی جو درحقیقت ہونا چاہیے۔

 اس خلیج کو پر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ

  • سیرتِ نبوی کا مطالعہ سطحی اور رسمی انداز میں نہیں، بلکہ عصری شعور کے ساتھ کیا جائے تاکہ اسے آج کے مسائل کے حل کے لیے ایک عملی نمونے کے طور پر سمجھا جا سکے۔
  • انفرادی اور اجتماعی سطح پر سنت کو زندگی کے تمام شعبوں میں نافذ کرنے کی مخلصانہ اور منظم کوشش کی جائے۔
  • علماء، دانشور اور تعلیمی ادارے اسوہ حسنہ کو دورِ جدید کے چیلنجز کے ایک قابلِ عمل اور مؤثر حل کے طور پر پیش کریں۔

امت کا ردِ عمل دراصل اس کی روحانی صحت کا پیمانہ ہے۔ صحابہ کرامؓ کی کامیابی کا راز اسوہ حسنہ سے ان کی مکمل وابستگی میں تھا، اور آج امت کے مسائل کی بنیادی وجہ اسی مرکز سے دوری ہے۔ چنانچہ اشد ضرورت ہے کہ اسوہ حسنہ کی صحیح تفہیم کے لیے اسوہ حسنہ کی اصل روح کو سمجھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے ، تاکہ   امت کی نشاۃِ ثانیہ کا راستہ  ہموار ہو سکے۔ 

فہم اسوہ حسنہ صلی الله علیہ وسلم

اس  کورس میں نبی کریم ﷺ  کی خاندانی زندگی کے  تمام پہلوؤں کا بہت احتیاط سے جائزہ لیا گیا ہے۔ مقصد صرف واقعات کو بیان کرنا  نہیں، بلکہ ان میں چھپی ہوئی  حکمت، روحانی بصیرت اور دائمی اصولوں کو آج کے دور  کے لیے قابلِ عمل نمونے کی صورت میں واضح کرنا ہے۔ کورس کا تحقیقی طریقہ کار  ، مکمل طور پر   معتبر مآخذ اور علمی اصولوں پر قائم ہے، تاکہ ہر مثال و اصول مضبوط شہادت پر مبنی ہو اور سیرت کا شفاف، حقیقی نقش سامنے آئے۔

تحقیق کی  ترتیب کچھ یوں ہے 

  • قرآن مجید: سیرتِ طیبہ کا اولین اور حتمی ماخذ ہے جو   واقعات، احوال اور نافذ کردہ تعلیمات کے ساتھ اخلاقِ نبوی اور اسوۂ حسنہ کی قطعی سند ہے۔
  • مستند احادیث: صحاحِ ستہ اور دیگر معتبر کتب میں نبی کریم ﷺ  اقوال، افعال اور تقریرات کے ذریعے خاندانی زندگی کے تمام پہلو مذکور  ہیں۔ علمِ حدیث کے اصول (اسناد و رواۃ کی جانچ) کے ذریعے صحیح و ضعیف کے فرق کو مدنظر رکھا گیا ہے۔
  • ابتدائی کتبِ سیرت و مغازی مثلا ابنِ اسحاق کی السیرۃ النبویۃ اور اس کی تہذیب شدہ شکل سیرت ابن ہشام جس کا  تاریخی تسلسل اور صدیوں پر محیط قبولیت مستند ہے،  اسی طرح ابنِ سعد کی الطبقات الکبریٰ کے ابتدائی حصے ، بیش  قیمت مصدر ہیں۔ 

اس  کورس میں پیش کیے گئے تمام واقعات اور اصول مستند، قابلِ اعتماد اور عملی رہنمائی فراہم کرنے والے ہیں، تاکہ عام لوگوں  کو خاندانی زندگی میں اسوۂ حسنہ کا واضح، مستند اور قابلِ اتباع نقشہ ملے۔

وضو کی دس حکمتیں

وضو کی 10 حکمتیں:

ظاہر اور باطن دونوں کی صفائی اہم ہے اور اس لحاظ سے صفائی اور طہارت کے چار درجے ہیں: 

(1) ظاہری گندگی اور ناپاکی دور کرنا

(2) اعضاء کو گناہوں سے بچانا

(3) دل کو برے اوصاف سے پاک کرنا

(4) ضمیر کو غیر اللہ سے صاف کرنا

وضو میں بے شمار حکمتیں ہیں جو قرآن، احادیث اور کتب طب سے ماخوذ ہیں، ان میں سے 10 یہ ہیں:

(1) وضو سے غفلت دور ہوتی ہے تاکہ نماز میں انسان پورے دھیان کے ساتھ اللہ تعالی کے سامنے کھڑا ہوسکے۔

(2) جسم سے زہریلا مواد نکل کر کھلے ہوئے اعضاء یعنی ہاتھ، پاؤں، چہرے اور سر پر آکر ٹھہر جاتا ہے اور مختلف پھوڑوں کی شکل میں ظاہر ہوتا رہتا ہے، وضو سے یہ گندا مواد ختم یا کم ہو جاتا ہے۔

(3) وضو کرنے والا اللہ تعالی کا محبوب بن جاتا ہے، ان اللہ یحب التوابین ویحب المتطھرین۔

(4) نورانیت بڑھتی ہے اور بہیمیت کی تاریکی دور ہوتی ہے۔

(5) عقل میں اضافہ ہوتا ہے۔

(6) گناہوں سے جو نور زائل ہوتا ہے وہ وضو کی وجہ سے دوبارہ مل جاتا ہے، حدیث میں ہے کہ روز قیامت اس امت کے ہاتھ پاؤں اور چہرے روشن ہوں گے۔

(7) فرشتوں سے مشابہت ہوتی ہے اور شیاطین سے دوری ہوجاتی ہے، یوں وضو کی وجہ سے انسان خدا کے دربار میں حاضری کے قابل ہوجاتا ہے۔

(8) نماز عظیم الشان امر ہے اور اللہ تعالی کا شعار ہے، اس لیے وضو اس کے لیے لازم کیا گیا، مفتاح الصلاۃ الطھور (وضو نماز کی چابی ہے)۔

(9) دربار شاہی میں حاضری کے آداب میں سے ہے کہ ظاہری حلیہ ٹھیک کرلیا جائے، اس لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے دربار میں حاضری کا بھی تقاضا ہے کہ ظاہری اعضاء کو صاف کرلیا جائے۔

(10) بے ہوشی، غشی اور غفلت کو دور کرنے میں ان اعضاء پر پانی ڈالنا یا چھڑکنا دنیاوی تجربے اور مشاہدے کی رو سے مفید ہے، وضو سے بھی اسی طرح غفلت دور کرکے تقویت اور بیداری حاصل کی جاتی ہے تاکہ اللہ تعالی کے سامنے آنے کے قابل ہوجائے جسے نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند، لاتأخذہ سنۃ ولا نوم، یہی وجہ ہے کہ نشہ و مستی کی حالت میں نماز کی اجازت نہیں، لاتقربوا الصلوۃ وانتم سکاری۔

طالبِ دعا:

محمد اسامہ سَرسَری

 احکامِ اسلام عقل کی نظر میں

(مؤلف: حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ)

(ملخص: محمد اسامہ سَرسَری)

پہلی قسط:

مقدمہ احکام اسلام عقل کی نظر میں

(1) جس طرح کسی ملک کے قوانین کی پابندی کرنا ہر ایک کے لیے ضروری ہے، کوئی یہ کہنے کا حق نہیں رکھتا کہ میں فلاں قانون پر عمل نہیں کروں گا کیونکہ مجھے اس کی لاجک سمجھ میں نہیں آئی، اسی طرح اللہ تعالی کے تمام احکام پر عمل کرنے میں ایک سچے مسلمان کی تسلی کے لیے یہ بات کافی ہونی چاہیے کہ قرآن و سنت سے ثابت ہے۔

(2) قرآن و سنت سے ثابت شدہ کسی شرعی حکم کو قبول کرنے کے لیے مصلحت و حکمت کا مطالبہ کرنا اللہ سبحانہ و تعالی کے ساتھ بغاوت ہے۔

(3) اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکام میں بے شمار حکمتیں اور مصلحتیں موجود ہیں اور ان کے معلوم ہونے سے بہت سے کمزور ایمان والوں کے دلوں کی تسلی ہوجاتی ہے۔

(4) اگر کسی کا یہ مزاج ہو کہ وہ حکمت و مصلحت کو دیکھ کر ہی اللہ کا کوئی حکم قبول کرتا ہے تو اس کا علاج یہی ہے کہ اسے اس سے روکا جائے، مگر یہ علاج طالب صادق ہی کے لیے مفید ہے۔

(5) احکام کی حکمتوں اور مصلحتوں کو متعدد لوگوں نے مرتب کیا ہے مگر باقاعدہ تصنیف کی شکل میں جو کتاب میرے سامنے آئی ہے وہ درست نہیں بلکہ نقصان دہ ہے اور اس سے بچنے کی اگر ترغیب دی جائے تو متبادل کتاب پیش کیے بغیر یہ ترغیب اثر نہیں کرے گی۔

(6) میری یہ کتاب ان لوگوں کے لیے نقصان دہ ہے جن کے دلوں میں احکام کی مصلحتیں پڑھ کر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکام کی وقعت کم ہوجاتی ہے یا وہ کسی بھی دینی مسئلے پر چلنے کے لیے اس مسئلے کی حکمت کا معلوم ہونا ضروری سمجھنے لگ جاتے ہیں، ایسے لوگوں کو یہ کتاب پڑھنے کی اجازت نہیں۔

(7) حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی کتاب "حجت اللہ البالغہ” بھی اسی موضوع پر ہے مگر عوام کے لیے اس کا مطالعہ مناسب نہیں۔

(8) میری اس کتاب کے ساتھ یہ دو کتابیں معلومات میں مزید اضافہ کریں گی: (الف) حجت اللہ البالغہ (مؤلف: شاہ ولی اللہ) (ب) اسرار الشریعۃ (مؤلف: فاضل ابراہیم آفندی)

(9) میں اپنی اس تالیف میں اکیلا نہیں بلکہ شاہ ولی اللہ اور فاضل ابراہیم آفندی مجھ سے پہلے یہ کام کرچکے ہیں، لہذا اسے میرا تفرد نہ سمجھا جائے۔

(10) اس طرز کا کام قرآن و سنت سے ثابت ہے، حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے حجت اللہ البالغہ کے خطبے میں یہ ثابت کیا ہے۔

طالبِ دعا:

محمد اسامہ سَرسَری 

اعمال وضو کی حکمتیں

احکام اسلام عقل کی نظر میں
مؤلف: حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ
ملخص: محمد اسامہ سَرسَری
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تیسری قسط
اعمالِ وضو کی حکمتیں:

(1) بسم اللہ پڑھنے کی حکمت:
تاکہ وضو جیسی اطاعت بھی غفلت سے شروع نہ ہو ورنہ ثواب نہیں ملے گا۔ لا وضوء لمن لم يذكر اسم الله عليه. (جامع ترمذی)

(2) پانی اور مٹی سے پاکی کی حکمت:
پانی اور مٹی سے پاکی حاصل ہونا فطرت اور عقل سلیم کے مطابق ہے اور اس کی تین وجوہات ہیں:
(الف) حضرت ادم علیہ السلام کو پانی اور مٹی سے پیدا کیا گیا ہے لہذا ان دونوں میں طبعی اور شرعی طور پر مناسبت ہے اس لیے طہارت ان دونوں سے درست ہوتی ہے۔
(ب) ہر زندہ چیز کی زندگی اور خوراک کو اللہ نے پانی اور مٹی سے جوڑا ہے، اسی لیے یہ دونوں ہر جگہ دستیاب ہیں۔
(ج) منہ کا مٹی سے الودہ کرنا اللہ کو پسند ہے۔

(3) اعضائے وضو مخصوص ہونے کی حکمت:
انسانی جسم میں سات چیزیں ایسی ہیں جو دو رخی ہیں یعنی ان سے نیکی بھی کر سکتا ہے اور گناہ بھی اور وہ یہ ہیں: زبان، آنکھ، کان، دماغ، سر (جس میں ناک بھی شامل ہے۔)، ہاتھ، پاؤں اور شرمگاہ، انھی سات سے گناہ کر کے بندہ سات جہنم کا مستحق ہوتا ہے (لھا سبعة ابواب) اور انھی سات سے نیکی کر کے سات جنت اور ایک اضافی بطور انعام یعنی آٹھ جنت پاتا ہے، لہذا استنجا کرنے کے بعد باقی چھ کو وضو میں دھویا جاتا ہے۔ ما منكم من أحد يتوضأ فيسبغ الوضوء ثم يقول: أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبد الله ورسوله، إلا فتحت له أبواب الجنة الثمانية، يدخل من أيها شاء (صحیح مسلم)

(4) وضو کی ترتیب کی حکمت:
یہ ترتیب (پہلے منہ، پھر ہاتھ، پھر سر اور پھر پاؤں دھونا) اس لیے رکھی گئی کہ وضو سے گناہ معاف ہوتے ہیں اور گناہ بھی اسی ترتیب سے ہوتے ہیں، چنانچہ پہلے کلی کروائی گئی، کیونکہ زبان کے گناہ عموما سب سے پہلے ہوتے ہیں، جسے کفر، غیبت، چغلی، گالم گلوچ اور لایعنی، پھر ناک میں پانی ڈال کر ناجائز سونگھنے کا گناہ اور علامتی طور پر تکبر کا گناہ زائل کیا جاتا ہے، پھر چہرہ دھو کر چہرے کے گناہ بشمول بد نظری معاف ہوتے ہیں، اسی طرح انسان دیکھنے اور بولنے کے بعد ہاتھ کے گناہ پر آتا ہے تو پھر ہاتھ دھلوائے گئے، پھر چونکہ سر، کان اور گردن کے گناہ نسبتاً کم ہوتے ہیں، اس لیے ان کا مسح کروایا گیا، پھر آخر میں پاؤں دھلوائے گئے کہ پاؤں کے گناہ عموما سب سے آخر میں ہوتے ہیں۔

(5) دائیں اور بائیں کی حکمت:
(الف) دائیں کو بائیں پر فضیلت ہے، اس لیے جن کاموں میں دونوں کا استعمال ہو تو پہل افضل سے کی جاتی ہے اور جن کاموں میں کسی ایک کا استعمال کافی ہو تو اچھے کاموں کو دائیں سے اور گندگی دور کرنے والے کاموں کو بائیں سے کیا جاتا ہے۔ ویؤت کل ذی فضل فضله.
(ب) ہر چیز کو اس کا حق دینا مرتبہ اعتدال ہے۔ كان رسول الله ﷺ يحب التيامن؛ يأخذ بيمينه، ويعطي بيمينه، ويحب التيمن في جميع أموره. (سنن نسائی)
(ج) انسان کے ہر مناسب اور نامناسب فعل کا اثر اس کے دل پر پڑتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر استنجا اور ناک صاف کرنے کے لیے دائیں ہاتھ کا استعمال کیا جائے یا کھانا بغیر عذر کے بائیں ہاتھ سے کھایا جائے تو یہ دل کی سختی اور غمگینی کا باعث ہوتا ہے۔

(6) تین بار دھونے کی حکمت:
(الف) چونکہ وضو سے توبہ کی طرح گناہ معاف ہوتے ہیں اور توبہ کے تین ارکان ہیں: ماضی پر ندامت، حال میں ترک اور مستقبل میں نہ کرنے کا عزم تو وضو میں بھی ہر رکن کو دھونے میں تین کے عدد کو ملحوظ رکھا گیا۔
(ب) تین سے کم میں نفس پر اثر نہیں ہوتا اور یہ تفریط ہے اور تین سے زیادہ دھونے میں اسراف ہے، اس لیے حد مقرر کر دی، چنانچہ صحابی نے پوچھا کہ کیا وضو میں بھی اسراف ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نَعَمْ، وَإِنْ كُنْتَ عَلَى نَهْرٍ جَارٍ.

(7) مسح ایک بار کی حکمت:
چونکہ مسح میں ضرر دور کرنا مقصود ہے کہ سر کو دھونے میں مشقت زیادہ ہے، اس لیے مسح کی تعداد بھی ایک ہی رکھی ہے، کیونکہ اگر تین بار مسح کیا جائے تو سر اچھا خاصا گیلا ہو جائے گا۔

(8) مسواک کی حکمت:
(الف) احکم الحاکمین کے دربار میں مکمل صفائی سے حاضری ہو سکے۔
(ب) منہ کی بدبو سے مسجد کے نمازیوں اور فرشتوں کو تکلیف نہ ہو۔

(9) وضو کا بچا ہوا پانی پینے کی حکمت:
چونکہ وضو سے ظاہری اعضاء صاف ہوتے ہیں اور ان کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، اس لیے وضو کے بعد باقی پانی پی کر گویا بندہ اللہ سے دعا کر رہا ہے کہ اے اللہ! جس طرح اس پانی سے تو نے میرا ظاہر پاک صاف کر دیا اسی طرح میرا باطن بھی پاک صاف کر دے۔

(10) وضو کے بعد کی دعا کی حکمت:
اَللّٰهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَّوَّابِينَ وَاجْعَلْنِي مِنَ الْمُتَطَهِّرِينَ.
یعنی اے اللہ! مجھے توبہ کرنے والوں اور پاکیزہ لوگوں میں شامل فرمادے۔
چونکہ اعضائے وضو کو دھونے میں زبان حال کی توبہ ہے، اس لیے آخر میں دعا پڑھتے ہیں تاکہ زبانِ قال سے بھی توبہ ہوجائے۔

طالبِ دعا:
محمد اسامہ سَرسَری

اعضائے وضو کی حکمتیں

اعضائے وضو کی حکمتیں:

(1) ناک صاف کرنے کی حکمت:
(الف) ناک کی بلغمی رطوبتیں دور کرنا ہر قوم کے نزدیک پسندیدہ ہے۔
(ب) تکبر ختم کرنے اور کسرِ نفسی کا استعارہ ہے۔

(2) ہاتھ کہنی تک دھونے کی حکمت:
(الف) تاکہ وہ تمام رگیں دھل جائیں جو بالواسطہ یا بلاواسطہ دل اور جگر تک پہنچتی ہیں۔
(ب) کہنی سے کم عضو ناتمام ہے، نفس پر اس کا اثر کم ہوگا۔

(3) سر کے مسح کی حکمت:
سر، کان اور گردن کا مسح ہے نہ کہ دھونے کا حکم، کیونکہ انھیں دھونا بہت مشکل ہے، ما یرید اللہ لیجعل علیکم من حرج۔

(4) پاؤں کو ٹخنوں تک دھونے کی حکمت:
(الف) دماغ تک پہنچنے والی کچھ رگیں پاؤں کی انگلیوں سے اور کچھ ٹخنوں سے شروع ہوتی ہیں، ان سب کو دھونے سے دماغ کے مضر بخارات بجھ جاتے ہیں، وارجلکم الی الکعبین۔
(ب) ٹخنے اکثر ننگے رہتے ہیں جس گرد و غبار اور مضر جراثیم لگ جاتے ہیں، یہ سب دھل جائیں۔
(ج) ٹخنے سے کم عضو ناتمام ہے، نفس پر اس کا اثر کم ہوگا۔

(5) وضو و غسل کے تمام اعضاء کی حکمت:
اسلام ظاہر اور باطن دونوں کی پاکی کو ملحوظ رکھتا ہے، وضو اور غسل سے گناہ معاف کرنے کی ترغیب آئی، لہذا بندے چاہیے کہ ہر عضو کو دھوتے وقت اس سے ہونے والے گناہوں کی معافی بھی ملحوظ رکھے اور آئندہ ان خطاؤں سے بچنے کی بھی نیت کرے۔

طالبِ دعا:
محمد اسامہ سَرسَری

تیمم کی حکمتیں

تیمم کی حکمتیں:

(1) متبادل پیش کرنے میں حکمت:
اللہ تعالی کی عادت ہے کہ بندوں پر جو کام دشوار ہوتا ہے اس میں آسانی پیدا کردیتے ہیں اور آسانی کی بہترین صورت یہ ہے کہ متبادل آسان کام دے دیا جائے لہذا وضو دشوار ہونے کی صورت میں متبادل کے طور پر تیمم کا حکم دیا گیا، اگر متبادل نہ ہوتا تو دو نقصان ہوتے: (الف) بندے متردد اور پریشان ہوجاتے۔ (ب) ترکِ طہارت کے عادی ہوجاتے۔

(2) مٹی سے طہارت حاصل کرنے کی چار حکمتیں:
بظاہر مٹی سے طہارت حاصل کرنا عقل کے خلاف ہے کیونکہ مٹی خود آلودہ ہوتی ہے، اس کے باوجود تیمم کے لیے مٹی کے انتخاب میں یہ حکمتیں ہیں:
(الف) اس دنیا کی ہر چیز پانی اور مٹی سے بنی ہے اور نشو و نما میں بھی اللہ نے ان دونوں کو سبب بنایا ہے اس لیے جسمانی و روحانی طہارت کے لیے بھی انھی دونوں کا انتخاب کرلیا گیا۔
(ب) پانی اور مٹی درج بالا مناسبت کی وجہ سے پانی (جس سے گندگی دور کرنے کا عام رواج ہے) کی غیر موجودگی میں مٹی ہی اس کے قائم مقام بنانے کے لیے زیادہ مناسب ہے۔
(ج) پانی کا استعمال دشوار ہو تو چونکہ زمین اور مٹی ہر جگہ موجود ہے لہذا مٹی ہی ہے جس سے یہ حرج دور ہوسکتا ہے۔
(د) منہ کو خاک آلود کرنے میں عاجزی ہے اور عاجزی اللہ کو پسند ہے ، یہی وجہ ہے کہ سجدے میں منہ کو مٹی سے نہ بچانا مستحب ہے۔

(3) سر اور پاؤں کا مسح نہ ہونے کی دو حکمتیں:
(الف) کیونکہ مٹی کا سر پر ڈالنا ناپسندیدہ ہے کیونکہ مصیبت میں لوگ سر پر مٹی ڈالتے ہیں اور پاؤں پر پہلے ہی مٹی لگی ہوتی ہے، جبکہ حکم اس چیز کا ہوتا ہے جو پہلے سے حاصل نہ ہو تاکہ نفس اس سے متنںہ ہوجائے۔
(ب) سر پر ہمیشہ اور پاؤں پر موزوں کی صورت میں مسح ہوتا ہے، تیمم چونکہ آسانی کے لیے ہے اس لیے جن اعضا کو ہمیشہ دھویا جاتا ہے ان کے مسح کا حکم دیا گیا اور جن پر مسح کیا جاتا ہے ان کا مسح بھی ساقط کیا گیا۔

(4) وضو اور غسل کا تیمم ایک جیسا ہونے کی حکمت:
سارے بدن کا مسح کرنے میں حرج ہے اور بہائم کے ساتھ مشابہت ہے، اس لیے جس طرح وضو کے تیمم میں سر اور پاؤں کا مسح ساقط ہوا اسی طرح غسل کے تیمم میں باقی سب اعضا کا مسح بھی ساقط کردیا گیا۔

طالبِ دعا:
محمد اسامہ سَرسَری

غسل کی بارہ حکمتیں

غسل کی 12 حکمتیں

(الف) جنبی و حائض کے لیے مسجد میں داخل ہونے اور تلاوت قرآن کرنے کی ممانعت کی حکمت:
(1) مسجد شعائر میں سے ہے اور نماز و قرآن اللہ سے ہم کلام کرتا ہے، ان کا تقاضا یہ ہے کہ بندہ ہر قسم کی نجاست سے پاک صاف ہوکر حاضر ہو۔

(ب) نومسلم غسل کی حکمتیں:
(2) کفر ایک نہایت بری چیز تھی، جب نومسلم غسل کرتا ہے تو ظاہری طور پر بھی وہ خود کو ایک بری چیز سے باہر نکلتا ہوا محسوس کرتا ہے۔
(3) یہ غسل اس نومسلم کے لیے پیغام ہے کہ جس طرح ظاہر کو پانی کے ذریعے گندگیوں سے دھویا ہے اسی طرح باطن کو بھی کفریہ عقائد سے دھوڈالے۔

(ج) حائضہ کے غسل کی حکمتیں:
(4) حیض کے خون کو قرآن نے اذٰی(گندگی) قرار دیا ہے، جس گندگی سے جسم بار بار آلودہ ہو اس سے نفس ناپاک ہوجاتا ہے، اس ناپاکی کو غسل سے دور کروایا گیا۔
(5) مسلسل خون نکلنے سے پٹھے کمزور ہوجاتے ہیں جو کہ غسل سے تر و تازہ اور قوی ہوجاتے ہیں۔

(د) غسلِ جنابت کی حکمتیں:
(6) منی سارے جسم سے نکلتی ہے، اسی لیے قرآن نے اسے سُلالہ کا نام دیا ہے، سُلالہ کہتے ہیں کسی چیز نکالی ہوئی شے کو۔ غسل میں سارا جسم دھلوایا گیا تاکہ پورے جسم کی کمزوری دور ہوجائے۔ چونکہ پیشاب پاخانہ محض کھانے پینے کا فضلہ ہوتا ہے اس لیے ان کے بعد غسل واجب نہیں ہوتا۔
(7) جنابت سے جسم میں سستی اور غفلت پیدا ہوجاتی ہے جبکہ غسل سے دل میں قوت اور بدن میں چستی آجاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ سلیم الفطرت لوگ اس غسل کے بعد محسوس کرتے ہیں جیسے کوئی بہت بڑا بوجھ اتر گیا ہو۔
(8) جنابت سے انسان کی فرشتوں سے مماثلت کم ہوجاتی اور ایک طرح کی دوری پیدا ہوجاتی ہے، غسل کرنے سے یہ دوری ختم ہوجاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ صحابہ سے روایت ہے کہ جب انسان سوتا ہے تو اس کی روح آسمان کی طرف جاتی ہے، اگر پاک ہو تو اسے سجدے کا حکم ہوتا ہے ورنہ نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنبی جب سونے لگے تو وضو کرلے۔
(9) جماع سے فراغت پر دل میں دل میں تنگی اور غم کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے پھر جب انسان غسل کرکے اچھے کپڑے پہنتا ہے اور خوشبو لگاتا ہے تو راحت اور خوشی محسوس کرتا ہے۔
(10) ماہر اطباء کا کہنا ہے کہ جماع کے بعد غسل کرنے سے کمزوریاں دور ہوجاتی ہیں اور بدن روح کے لیے مفید ہے، سو غسل سے بدن اور روح دونوں کو تقویت ملتی ہے۔
(11) جماع سے جو لذت حاصل ہوتی ہے اس میں بھی ذکر الہی سے غفلت پائی جاتی ہے، غسل سے اس کی تلافی ہوجاتی ہے۔
(12) نطفہ خارج ہونے سے بدن کے تمام مسامات کھل جاتے ہیں اور کبھی ان سے پسینہ نکلتا ہے جس کے ساتھ اندر کا گندا مواد بھی نکل کر مسامات پر آکر ٹھہر جاتا، اگر اسے دھویا نہ جائے تو خطرناک بیماریوں کا خدشہ ہے۔ غسل کی برکت سے یہ خدشہ باقی نہیں رہتا۔

("الحِكَم الجميلة” تلخيص "المصالح العقيلة للاحكام النقيلة” للشيخ محمد اشرف علی التھانوی قدس سرہ)

طالبِ دعا:
محمد اسامہ سَرسَری

محمد(صلی الله علیہ وسلم) نام رکھنا کیسا ہے؟

محمد نام رکھنے پر جنت یا شفاعت نصیب ہونے والی روایات سندا موضوع ہیں۔ اس پر رد کرتے ہوئے بعض عقلاء نے اس فضیلت کو خلاف عقل قرار دیا ہے۔

مگر اول تو صحیح روایات میں بھی محمد نام رکھنے کے متعدد فضائل آئے ہیں، اس لیے اپنی عقل کے بجائے ہمیں سید العقلاء صلی اللہ علیہ وسلم پر اندھا اعتماد ہونا چاہیے۔ 🙂

مثلا:

سمّوا بإسمي”.(صحیح بخاری)
(میرے نام پر نام رکھو۔)

آپ ﷺ کی خدمت میں جب نومولود بچے لائے جاتے تھے تو آپﷺ تحنیک کے بعد ان کا نام بھی تجویز فرماتے، چناں چہ ان میں سے کئی بچوں کانام آپ ﷺنے ”محمد“ رکھا۔
نومسلموں میں سے بھی اگر کسی کا نام صحیح نہ ہوتا تو آپ ﷺ اس کا نام تبدیل فرما دیتے، چناں چہ کچھ صحابہ کا نام آپ ﷺ نے خود تبدیل کرکے ”محمد“ رکھا۔
محمد نام کے صحابہ:
محمد بن خلیفہ، محمد مولی رسولﷺ، محمد بن طلحہ، محمد بن نبیط، محمد بن عباس بن فضلۃ، محمد بن انس بن فضالۃالانصاری، محمد بن مخلد بن سحیم، محمد بن یفدیدویہ، محمد بن ہلال بن العلیٰ، محمد بن معمر، محمد بن ضمرۃبن الاسود، محمد بن عمارۃ بن حزم، محمد بن ثابت، محمد بن عمرو بن حزم
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ "میں نے اہلِ مکہ سے سنا ہے کہ جس گھر میں ”محمد“ نام والا ہو تو اس کی وجہ سے ان کو اور ان کے پڑوسیوں کو رزق دیا جاتا ہے”
(مستفاد از فتاوی جامعہ علومِ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی)

دیگر یہ کہ جنت اور شفاعت والی روایت کو بعض علماء نے حسن بھی بتایا ہے، نیز موضوع ہونے کا یہ مطلب ہے کہ سند میں کچھ لوگ غیر معتبر ہیں، اب اس غیر معتبر نے وہ بات درست پیش کی ہے یا غلط، دونوں احتمالات موجود ہیں۔

جہاں تک یہ عقلی موشگافی کہ یہ نا انصافی ہے تو ایسا نہیں ہے، آپ ذخیرۂ احادیث کھول کر دیکھیں، رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے بے شمار اعمال پر الگ الگ جنت کی بشارت عطا فرمائی ہے، نیز جیسے بچے کا نام رکھنا اس کے نہیں بلکہ سرپرست کے اختیار میں تو ویسے ہی اس کی تربیت بھی اس کے سرپرست ہی کے اختیار میں ہے تو جس طرح اچھی تربیت اس بچے کو زندگی بھر جنت والے اعمال پر لگا سکتی ہے ویسے ہی اگر کوئی اپنے بچے کا نام اچھا رکھے گا تو اس کا فائدہ اسے اور اس کے بچے دونوں کو ہوگا۔ 🙂

طالبِ دعا:
محمد اسامہ سَرسَری

اردو لکھنے میں کی جانے والی 12 غلطیاں

انتخاب و تحریر: ڈاکٹر معین الدین عقیل

# پہلی

اردو کے مرکب الفاظ الگ الگ کر کے لکھنا چاہئیں، کیوں کہ عام طور پر کوئی بھی لفظ لکھتے ہوئے ہر لفظ کے بعد ایک وقفہ ( اسپیس ) چھوڑا جاتا ہے، اس لیے یہ خود بخود الگ الگ ہوجاتے ہیں۔

دراصل تحریری اردو طویل عرصے تک ’کاتبوں‘ کے سپرد رہی، جو جگہ بچانے کی خاطر اور کچھ اپنی بے علمی کے سبب بہت سے لفظ ملا ملا کر لکھتے رہے۔ جس کی انتہائی شکل ہم ’آجشبکو‘ کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔ بہت سے ماہرِ لسانیات کی کوششوں سے اب الفاظ الگ الگ کر کے لکھے تو جانے لگے ہیں، لیکن اب بھی بہت سے لوگ انہیں بدستور جوڑ کر لکھ رہے ہیں۔ بات یہ ہے کہ جب یہ اردو کے الگ الگ الفاظ ہیں، تو مرکب الفاظ کی صورت میں جب انہیں ملا کر لکھا جاتا ہے، تو نہ صرف پڑھنا دشوار ہوتا ہے، بلکہ ان کی ’شکل‘ بھی بگڑ جاتی ہے۔

مندرجہ ذیل میں ان الفاظ کی 12 اقسام یا ’ طرز ‘ الگ الگ کر کے بتائی جا رہی ہیں، جو دو الگ الگ الفاظ ہیں یا ان کی صوتیات/ آواز کو سامنے رکھتے ہوئے انہیں الگ الگ کرکے لکھنا ضروری ہے۔

  • جب کہ، چوں کہ، چناں چہ، کیوں کہ، حالاں کہ
  • کے لیے، اس لیے، اس کو، آپ کو، آپ کی، ان کو، ان کی
  • طاقت وَر، دانش وَر، نام وَر
  • کام یاب، کم یاب، فتح یاب، صحت یاب
  • گم نام، گم شدہ
  • خوش گوار، خوش شکل
  • الم ناک، وحشت ناک، خوف ناک، دہشت ناک، کرب ناک
  • صحت مند، عقل مند، دانش مند،
  • شان دار، جان دار، کاٹ دار،
  • اَن مول، اَن جانا، اَن مٹ، اَن دیکھا، اَن چُھوا
  • بے وقوف، بے جان، بے کار، بے خیال، بے فکر، بے ہودہ، بے دل، بے شرم، بے نام،
  • امرت سر، کتاب چہ
  • خوب صورت، خوب سیرت وغیرہ # دوسری

اردو لکھتے ہوئے ہمیں یکساں آواز مگر مختلف املا کے الفاظ کا خیال رکھنا چاہیے، جیسے کہ ’کے اور کہ، سہی اور صحیح، صدا اور سدا، نذر اور نظر، ہامی اور حامی، سورت اور صورت، معرکہ اور مارکہ، قاری اور کاری، جانا اور جاناں وغیرہ

# تیسری

اردو کا اہم ذخیرہ الفاظ فارسی کے علاوہ عربی کے الفاظ پر بھی مشتمل ہے، جس میں بہت سی تراکیب بھی عربی کی ہیں، ان کو لکھتے ہوئے ان کے املا کا خیال رکھنا چاہیے، جس میں بعض اوقات الف خاموش (سائلنٹ) ہوتا ہے جیسے بالکل، بالخصوص، بالفرض، بالغرض وغیرہ۔ جب کہ کہیں چھوٹی ’ی‘ یا کسی اور لفظ پر کھڑی زبر ہوتی ہے، جو الف کی آواز دیتی ہے، جیسے وزیراعلیٰ، رحمٰن اور اسحٰق وغیرہ، اسی طرح بہت سی عربی تراکیب میں ’ل‘ ساکت ہوتا ہے جیسے ’السلام علیکم‘ اسے ’ل‘ کے بغیر لکھنا فاش غلطی ہے۔

# چوتھی

زیر والے مرکب الفاظ جیسے جانِ من (نہ کہ جانے من) جانِ جاں (نہ کہ جانے جاں) شانِ کراچی (نہ کہ شانے کراچی) فخرِ پنجاب (نہ کہ فخرے پنجاب) اہلِ محلہ ( نہ کہ اہلے محلہ) وغیرہ کی غلطی بھی درست کرنا ضروری ہے۔

# پانچویں

اپنے جملوں میں مستقبل کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ’کر دینا ہے‘ نہیں بلکہ ’کردیں گے‘ لکھنا چاہیے، جیسے اب تم آگئے ہو تو تم بول بول کے میرے سر میں درد کر دو گے (نہ کہ کردینا ہے) اب ٹیچر آگئے ہیں تو تم کتاب کھول کر پڑھنے کی اداکاری شروع کر دو گے (نہ کہ کردینی ہے) لکھنا چاہیے۔

# چھٹی

اردو کے ’مہمل الفاظ‘ میں’ش‘ کا نہیں بلکہ ’و‘ کا استعمال کیا جاتا ہے، جیسے کتاب وتاب، کلاس ولاس، اسکول وسکول، پڑھائی وڑھائی، عادت وادت وغیرہ۔ انہیں کتاب شتاب، کلاس شلاس لکھنا غلط کہلاتا ہے۔

# ساتویں

اردو میں دو زبر یعنی‘ تنوین‘ والے لفظوں کو درست لکھنا چاہیے، اس میں دو زبر مل کر ’ن‘ کی آواز دیتے ہیں جیسے تقریباً، اندازاً، عادتاً، اصلاً، نسلاً، ظاہراً، مزاجاً وغیرہ۔

# آٹھویں

کسی بھی لفظ کے املا میں ’ن‘ اور ’ب‘ جہاں ملتے ہیں وہاں ’م‘ کی آواز آتی ہے، اس کا بالخصوص خیال رکھنا چاہے ’ن‘ اور ’ب‘ ہی لکھا جائے ’م‘ نہ لکھا جائے، جیسے انبار، منبر، انبوہ، انبالہ، استنبول، انبیا، سنبھل، سنبھال، اچنبھا، عنبرین، سنبل وغیرہ

# نویں

اردو کے ان الفاظ کی درستی ملحوظ رکھنا چاہیے جو "الف” کی آواز دیتے ہیں، لیکن کسی کے آخر میں ’ہ‘ ہے اور کسی کے آخر میں الف۔ انہیں لکھتے ہوئے غلطی کی جائے، تو اس کے معانی میں زمین آسمان کا فرق پیدا ہو جاتا ہے۔ جیسے گِلہ اور گلا، پیسہ اور پِیسا، زن اور ظن، دانہْ اور دانا وغیرہ وغیرہ۔

# دسویں

الف کی آواز پر ختم ہونے والے الفاظ چاہے وہ گول ’ہ‘ پر ختم ہوں یا ’الف‘ پر، انہیں جملے میں استعمال کرتے ہوئے بعض اوقات جملے کی ضرورت کے تحت ’جمع‘ کے طور پر لکھا جاتا ہے، حالاں کہ وہ واحد ہی ہوتے ہیں۔ ایسے میں جملے کا پچھلا حصہ یا اس سے پہلے والا جملہ یہ بتا رہا ہوتا ہے کہ یہ دراصل ’ایک‘ ہی چیز کا ذکر ہے۔ جیسے:_

_میرے پاس ایک ’بکرا‘ تھا، اس ’بکرے‘ کا رنگ کالا تھا۔

_میرے پاس ایک ’چوزا‘ تھا، ’چوزے‘ کے پر بہت خوب صورت تھے۔

_ہمارا ’نظریہ‘ امن ہے اور اس ’نظریے‘ کے تحت ہم محبتوں کو پھیلانا چاہتے ہیں۔

_جلسے میں ایک پرجوش ’نعرہ‘ لگایا گیا اور اس ’نعرے‘ کے بعد لوگوں میں جوش و خروش بڑھ گیا۔

_ایک ’کوا‘ پیاسا تھا، اس ’کوے‘ نے پانی کی تلاش میں اڑنا شروع کیا۔

# گیارہویں

انگریزی الفاظ لکھتے ہوئے خیال رکھنا چاہیے کہ جو الفاظ یا اصطلاحات (ٹرمز) رائج ہو چکی ہیں، یا جن کا کوئی ترجمہ نہیں ہے یا ترجمہ ہے تو وہ عام طور پر استعمال نہیں ہوتا، اس لیے انہیں ترجمہ نہ کیا جائے بلکہ انگریزی میں ہی لکھ دیا جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جن انگریزی الفاظ کو اردو میں لکھا جائے گا، ان کی جمع اردو کی طرز پر بنائی جائے گی، نہ کہ انگریزی کی طرز پر، جیسے اسکول کی اسکولوں، کلاس کی کلاسوں، یونیورسٹی کی یونیورسٹیوں، اسٹاپ کی اسٹاپوں وغیرہ۔ تیسری بات یہ ہے کہ انگریزی کے بہت سے ایسے الفاظ جو ’ایس‘ سے شروع ہوتے ہیں، لیکن ان کے شروع میں ’الف‘ کی آواز ہوتی ہے، انہیں اردو میں لازمی طورپر الف کے ساتھ لکھا جائے گا۔ جیسے اسکول، اسٹاپ، اسٹاف، اسٹیشن، اسمال، اسٹائل، اسٹوری، اسٹار وغیرہ۔ لیکن ایسے الفاظ جو شروع تو ’ایس‘ سے ہوتے ہیں لیکن ان کے شروع میں الف کی آواز نہیں ہے انہیں الف سے نہیں لکھا جائے گا، جیسے سچیویشن، سورس، سینڈیکیٹ، سیمسٹر، سائن اوپسس وغیرہ۔

# بارہویں

ہندوستانی فلموں نے اردو پر جو بھدا اثر ڈالا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہاں لفظ ’اپنا‘ کی جگہ میرا بولا جاتا ہے۔ ہمیں اردو لکھتے ہوئے اسے ٹھیک کرنا چاہیے، اس لیے ’میں میرے نہیں‘ بلکہ ’میں اپنے لکھا جائے‘ جیسا کہ میں میرے گھر میں میرے بھائی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ یہ بالکل غلط ہوگا، درست جملہ یوں ہوگا کہ میں اپنے گھر میں اپنے بھائی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔🍂

شاعری کے رموز

مصرعے کا اختتام کیسے ہونا چاہیے

مصرع کا اختتام آسان اور مترنم آواز پر ہونا چاہیے، یعنی آخری حرف ان میں سے ہو:
ا، م، ن، ں، و، ہ، ی
ورنہ کم از کم ان میں سے نہ ہو:
ب، پ، ت، ٹ، ث، ج، چ، د، ڈ، ذ، ڑ، ز، ژ، ش، ض، ط، ظ، غ، ق
البتہ اگر ان میں سے کسی کو لانا ناگزیر ہو تو ان سے پہلے ا، و، ی، ے وغیرہ ہونا چاہیے۔
طالبِ دعا:
محمد اسامہ سَرسَری

اساتذہ اور اساتید میں فرق


سوال

استاد کی جمع اساتید، استاذ کی جمع اساتذہ، اس کی کیا وجہ ہے؟


جواب

لفظ استاد فارسی سے عربی میں آیا اور "استاذ” بن گیا، پھر لفظ استاذ کی دو عربی جمعیں بنائی گئیں


(1) اساتذۃ (2) اساتیذ

جیسے تلمیذ(شاگرد) کی جمع تلامذۃ بھی ہے اور تلامیذ بھی۔

استاذ کی ایک جمع اُسْتَاذُوْن بھی ہے، جسے عربی گرامر کی رو سے جمع مذکر سالم کہتے ہیں۔
فارسی میں استاد کی جمع استادان ہے۔


جبکہ اردو میں استاد کی جمع استادوں کے علاوہ اساتذہ بھی مستعمل ہے اور مرکبات میں استادان بھی۔
اساتید (دال کے ساتھ) میری نظر سے نہیں گزرا ، ممکن ہے فارسی والے اساتیذ پر قیاس کرکے اساتید بولتے ہوں۔
واللہ اعلم
محمد اسامہ سَرسَری

مسلم دنیا میں پرنٹنگ اور طباعت کا آغاز

15ویں صدی میں گٹن برگ۔ جیوفری روپر اصل ماخذ پر تحقیق کے نتائج بیان کرتے ہوئے بتاتے  ہیں کہ ابتدائی طباعت شدہ عربی دستاویزات میں  کچھ بہت نفیس ڈیزائن ملتے ہیں جن میں خطاطی کے ہیڈ پیس، ٹرانسورس لیٹرنگ، جیومیٹرک پینلز، گول گول اور رنگ کا استعمال شامل ہے۔ مصنف نے مختصراً اس اہم دریافت کو تحریر  کیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ "مسلمان گٹن برگ سے تقریباً پانچ صدیوں پہلے تک طباعت کے ہنر پر عمل پیرا تھے”۔

ڈاکٹر جیفری روپر ایک بین الاقوامی کتابیات اور لائبریری کنسلٹنٹ ہیں، جو لندن میں انسٹی ٹیوٹ فار دی سٹڈی آف مسلم تہذیبوں اور دیگر علمی اداروں کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ ڈرہم یونیورسٹی اور قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی، وہ 1982 سے 2003 تک کیمبرج یونیورسٹی میں اسلامی کتابیات یونٹ کے سربراہ اور انڈیکس اسلامک کے ایڈیٹر رہے، جو کہ موجودہ جامع کتابیات اور تمام پہلوؤں پر اشاعتوں کے لیے تلاش کا بڑا آلہ ہے۔  وہ الفرقان فاؤنڈیشن کے ورلڈ سروے آف اسلامک مینو سکرپٹس کے ایڈیٹر، مڈل ایسٹ لائبریریز کمیٹی (MELCOM-UK) کے چیئرمین اور مختلف حوالہ جاتی کاموں میں معاون بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے مسلم دنیا میں کتابیات اور طباعت اور اشاعت کی تاریخ پر وسیع پیمانے پر تحقیق کی ہے،اس پر لکھا ہے اور لیکچرز دیے ہیں اور کیمبرج یونیورسٹی کی لائبریری اور مینز کے گٹن برگ میوزیم میں اس موضوع پر نمائشیں کروائی ہیں، آکسفورڈ کمپینین ٹو دی بک کے ایسوسی ایٹ ایڈیٹر  رہے،  ان  کی اشاعتوں کی ایک جامع فہرست، اس مضمون کے آخر میں دی گئی ہے۔

مینز کے 15ویں صدی کے جرمن کاریگر جوہانس گٹن برگ کو اکثر طباعت کے فن اور دستکاری کی ایجاد کا سہرا دیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نے انسانی رابطے اور علم کے جمع کرنے میں ایک زبردست انقلاب برپا کیا، لیکن کیا یہ واقعی 15ویں صدی کے یورپ میں "ایجاد” ہوا تھا؟

ایسا لگتا ہے کہ گٹن برگ  پرنٹنگ پریس وضع کرنے والا پہلا شخص تھا، لیکن خود پرنٹنگ، یعنی کسی متن کی ایک سے زیادہ کاپیاں بنا کر اسے ایک اوپر کی سطح سے دوسری پورٹیبل سطحوں (خاص طور پر کاغذ) پر منتقل کرنا بہت پرانا عمل ہے۔ چینی اسے چوتھی صدی کے اوائل میں کر رہے تھے، اور ہمارے لیے سب سے پرانی تاریخ کا مطبوعہ متن 868 کا ہے: ڈائمنڈ سترا، بدھ مت کے متن کا چینی ترجمہ جو اب برٹش لائبریری میں محفوظ ہے ۔

جو بات بہت کم مشہور ہے وہ یہ ہے کہ 100 سال سے کچھ زیادہ عرصہ بعد عرب مسلمان بھی نصوص چھاپ رہے تھے جن میں قرآن کے حوالے بھی شامل تھے۔ انہوں نے کاغذ سازی کے چینی دستکاری کو پہلے ہی قبول کر لیا تھا، اسے تیار کیا تھا اور اسے مسلم سرزمینوں میں بڑے پیمانے پر اپنایا تھا۔ اس کی وجہ سے مخطوطات کی تیاری میں بڑی ترقی ہوئی۔   ایک قسم کا متن  جسے خاص طور پر بڑے پیمانے پر تقسیم کیا گیا  یہ دعاؤں، ترانے، قرآنی اقتباسات اور خدا کے "خوبصورت ناموں” کا نجی عقیدتی مجموعہ تھا، جس کی مسلمانوں، امیروں میں بہت زیادہ مانگ تھی۔ اور غریب، تعلیم یافتہ اور ان پڑھ۔ وہ خاص طور پر اسے تعویذ کے طور پر استعمال کرتے تھے، جو پہنا جاتا تھا یا اکثر لپیٹ کر لاکٹ میں بند کر دیا جاتا تھا۔

چنانچہ فاطمی مصر میں، یہ تکنیک اختیار کی گئی کہ ان تحریروں کو کاغذ کی پٹیوں پر چھاپ دیا جائے، اور بڑے پیمانے پر طلب کو پورا کرنے کے لیے انہیں متعدد کاپیوں میں فراہم کیا جائے۔

 ماہرین آثار قدیمہ کو فوسٹاٹ (پرانے قاہرہ) میں کھدائی کے دوران کئی چیزیں ملی ہیں، اور آثار قدیمہ کے تناظر نے ان کی تاریخ 10ویں صدی تک بتائی ہے۔ دیگر نمونے مصر کے مختلف مقامات سے حاصل ہوئے، جہاں خشک آب و ہوا نے انہیں محفوظ رکھنے میں مدد کی ۔ عربی رسم الخط کا جو انداز استعمال کیا گیا وہ کوفی کے آخری اور مختلف کرسیو نسخ اور مملوک دور (13ویں-16ویں صدی) میں استعمال ہونے والے دیگر اسلوب سے  مختلف ہے۔ ایک عمدہ قدیم نمونہ  15 ویں صدی کے اطالوی آبی نشان والے کاغذ پر چھپی تحریر ہے۔ چنانچہ مسلم طباعت تقریباً 500 سال تک جاری رہی۔

 ہم نہیں جانتے کہ آیا اس نے یورپ میں پرنٹنگ کو اپنانے پر اثر انداز کیا ہو گا: اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے، لیکن اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا، خاص طور پر جیسا کہ ابتدائی یورپی مثالیں بلاک پرنٹس تھیں۔ یہاں تک کہ یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ اطالوی لفظ tarocchi، جس کا مطلب ہے ٹیرو کارڈز (جو یورپ میں قدیم ترین بلاک پرنٹ شدہ نوادرات میں سے تھے)، عربی  لفظ ترش سے ماخوذ ہو سکتا ہے ۔ لیکن یہ ایک انتہائی قیاس آرائی پر مبنی نظریہ ہے، اور اسے قبول کرنے سے پہلے مزید شواہد درکار ہوں گے۔

ان میں سے کچھ پرنٹ شدہ دستاویزات کافی نفیس ڈیزائن دکھاتی ہیں جن میں خطاطی کے ہیڈ پیس، ٹرانسورس لیٹرنگ، جیومیٹرک پینلز، گول گول اور رنگ کا استعمال شامل ہوتا ہے۔ اسکرپٹ اسٹائل کی بھی بہت بڑی قسم ہے۔

ان عربی مطبوعہ ٹکڑوں کے تقریباً ساٹھ نمونے  یورپی اور امریکی لائبریریوں اور عجائب گھروں میں موجود ہیں، اور خود مصر میں ایک نامعلوم کثیر  تعداد ہے۔ ایک نمونہ ، نجی ہاتھوں میں، افغانستان، یا ایران میں بھی ہو سکتا ہے، جہاں تاریخی ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ کاغذی کرنسی منگول دور میں بھی چھپی تھی۔ تاہم، مطبوعہ تحریروں کی تیاری کے حوالے سے بہت کم تاریخی یا ادبی حوالہ جات ہیں۔

 10ویں اور 14ویں صدی کی عربی نظموں میں تعویذ کی کاپیاں تیار کرنے کے لیے ترش کے استعمال سے متعلق صرف دو اشارے ہیں۔ یہ تجویز کیا گیا ہے کہ یہ غیر کلاسیکی عربی اصطلاح کندہ شدہ یا repoussé حروف کے ساتھ ٹن پلیٹوں کی نشاندہی کرتی ہے، جس سے پرنٹ شدہ نقوش بنائے گئے تھے۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ چینی طرز کے لکڑی کے بلاک استعمال کیے گئے ہوں۔

 صحیح تکنیک اب بھی نامعلوم ہے.

جس چیز میں کوئی شک نہیں وہ یہ ہے کہ مسلمان گٹن برگ سے تقریباً پانچ صدیوں پہلے تک طباعت سے واقف تھے اور اشاعت  کے ہنر پر عمل پیرا تھے۔

( مدینہ کلیکشن میں عربی بلاک پرنٹ۔ دستاویز M.2002.1.370۔ لاس اینجلس میوزیم آف آرٹ، مدینہ کلیکشن آف اسلامک آرٹ، کیملا چاندلر فراسٹ کا تحفہ۔ لاس اینجلس کاؤنٹی میوزیم آف آرٹس کے کاپی رائٹ۔ رچرڈ ڈبلیو بلیٹ سے دوبارہ تیار کیا گیا، "قرون وسطی عربی ترش: عربی طباعت کی تاریخ کا ایک بھولا ہوا باب”، جرنل آف دی امریکن اورینٹل سوسائٹی 107 (1987)، صفحہ۔ 437.)

نماز کی تاریخ

نماز کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے ، جتنی خود مذہب کی ہے ۔ اِس کا تصور تمام مذاہب میں رہا ہے اور اِس کے مراسم اور اوقات بھی کم و بیش متعین رہے ہیں۔ ہندووں کے بھجن ، پارسیوں کے زمزمے، عیسائیوں کی دعائیں اور یہودیوں کے مزامیر ، سب اِسی کی یادگاریں ہیں ۔ قرآن نے بتایا ہے کہ اللہ کے تمام پیغمبروں نے اِس کی تعلیم دی ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت جس دین ابراہیمی کی تجدید کے لیے ہوئی ، اُس میں بھی اِس کی حیثیت سب سے زیادہ نمایاں ہے ۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسمٰعیل کو ام القریٰ کی وادی غیر ذی زرع میں آباد کیا تو اِس کا مقصد یہ بتایا کہ ’ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ‘  ﴿پروردگار، تاکہ وہ نماز کا اہتمام کریں﴾۔ اِس موقع پر اُنھوں نے دعا فرمائی : ’ رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ‘  ﴿پروردگار، مجھے اور میری اولاد کو نماز کا اہتمام کرنے والا بنا دے﴾۔ سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ ’کَانَ یَاْمُرُ اَہْلَہ، بِالصَّلٰوۃِ‘  ﴿وہ اپنے گھروالوں کو نماز کی تلقین کرتے تھے﴾ ۔ سیدنا شعیب کو اُن کی قوم نے طعنہ دیا کہ ’ اَصَلٰوتُکَ تَاْمُرُکَ اَنْ نَّتْرُکَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَآ‘  ﴿ کیا تمھاری نماز تمھیں یہ سکھاتی ہے کہ ہم اپنے باپ دادا کے معبودوں کو چھوڑ دیں﴾ ۔ سیدنا اسحق اور سیدنا یعقوب کی نسل کے پیغمبروں کے بارے میں قرآن کا بیان ہے : ’اَوْحَیْْنَآ اِلَیْْہِمْ فِعْلَ الْخَیْْرٰتِ وَاِقَامَ الصَّلٰوۃِ‘  ﴿ ہم نے اُن کو بھلائی کے کام کرنے اور نماز کا اہتمام کرنے کی وحی کی﴾۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو نبوت عطا ہوئی تو حکم دیا گیا : ’اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ‘  ﴿ میری یاد کے لیے نماز کا اہتمام رکھو﴾۔ زکریا علیہ السلام کی نسبت ارشاد ہوا ہے: ’ وَہُوَ قَائِمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِ‘  ﴿اور وہ محراب میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے﴾۔ سیدنا مسیح علیہ السلام نے اپنے متعلق فرمایا ہے : ’وَاَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوۃِ‘  ﴿اور اللہ نے مجھے نماز کا حکم دیا ہے﴾۔ لقمان عرب کے حکیم تھے ۔قرآن نے بتایا ہے کہ اُنھوںنے اپنے بیٹے کو نصیحت فرمائی: ’ یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ‘  ﴿بیٹے، نماز کا اہتمام کرو﴾۔ بنی اسرائیل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ ’اِنِّیْ مَعَکُمْ، لَئِنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوۃَ…لَّاُکَفِّرَنَّ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ‘  ﴿میں تمھارے ساتھ ہوں۔ اگر تم نماز پر قائم رہو گے… تو میں تمھاری برائیاں تم سے دور کر دوں گا﴾۔ قرآن کی گواہی ہے کہ زمانۂ رسالت میں یہود و نصاریٰ کے صالحین نماز کا اہتمام کرتے تھے :

 مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اُمَّۃٌ قَآئِمَۃٌ یَّتْلُوْنَ اٰیٰتِ اللّٰہِ اٰنَآئَ الَّیْلِ وَھُمْ یَسْجُدُوْنَ.﴿آل عمران ۳: ۳۱۱﴾ 

’’اِ ن اہل کتاب میں سے ایک گروہ اللہ کے ساتھ اپنے عہد پر قائم ہے ۔ یہ راتوں کو آیات الٰہی کی تلاوت کرتے اور اپنے پروردگار کے سامنے سجدہ ریز رہتے ہیں ۔ ‘‘

یہی بات اُس زمانے کے مشرکین عرب کے متعلق بھی بیان ہوئی ہے :

 فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلَاتِھِمْ سَاھُوْنَ.﴿الماعون ۷۰۱: ۴-۵﴾ 

’’اِس لیے بربادی ہے ﴿حرم کے پروہت﴾ اِن نمازیوں کے لیے جو اپنی نمازوں ﴿کی حقیقت سے﴾ غافل ہیں۔‘‘

جاہلی شاعر جران العود کہتا ہے :

 وادرکن اعجازًا من اللیل بعد ما اقام الصلٰوۃ العابد المتحنف

 ’’اور اِن سواریوں نے رات کے پچھلے حصے کو پا لیا ، جبکہ عبادت گزار حنیفی نماز سے فارغ ہو چکا تھا۔ ‘‘

اعشیٰ وائل کا شعر ہے :

 وسبح علی حین العشیات والضحٰی ولا تعبد الشیطان، واللّٰہ فاعبدا

 ’’اور صبح و شام تسبیح کرو، اور شیطان کی عبادت نہ کرو ، بلکہ اللہ کی عبادت کرو۔‘‘

روایتوں میں بھی یہود و نصاریٰ اور دین ابراہیمی کے پیرووں کی نماز کا ذکر ہوا ہے ۔

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ سیدنا عمر نے یا غالباً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کسی کے پاس دو کپڑے ہوں تو دونوں میں نماز پڑھے اور اگر ایک ہی ہو تو تہ بند باندھ لے ، اُسے نماز میں یہودیوں کی طرح چادر بنا کر لپیٹے نہیں ۔

ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات سے تین سال پہلے ہی میں نماز پڑھتا تھا۔ پوچھا گیا کہ کس کے لیے ؟ فرمایا : اللہ کے لیے ۔

یہود و نصاریٰ کی نماز کا ذکر بائیبل میں بھی جگہ جگہ ہوا ہے اور جس طرح قرآن نے بعض مقامات پر نماز کو اللہ کا نام لینے، قرآن پڑھنے ، دعا کرنے ، تسبیح کرنے اور رکوع و سجود کرنے سے تعبیر کیا ہے ، اِسی طرح بائیبل میں بھی نماز کو اِس کے ارکان سے تعبیر کیا گیاہے۔

پیدایش میں ہے :

 ’’اور وہاں سے کوچ کر کے ﴿ابراہیم﴾ اُس پہاڑ کی طرف گیا جو بیت ایل کے مشرق میں ہے اور اپنا ڈیرا ایسے لگایا کہ بیت ایل مغرب میں اور عی مشرق میں پڑا اور وہاں اُس نے خداوند کے لیے ایک قربان گاہ بنائی اور خدا کا نام لیا۔ ‘‘ ﴿۲۱: ۸﴾

 ’’تب ابراہیم سجدہ ریز ہو گیا اور خدا نے اُس سے ہم کلام ہو کر فرمایا ۔ ‘‘ ﴿۷۱: ۳﴾

 ’’سو وہ مرد وہاں سے مڑے اور سدوم کی طرف چلے ، پر ابراہیم خداوند کے حضور کھڑا ہی رہا ۔‘‘ ﴿۸۱: ۲۲﴾

 ’’تب ابراہیم نے اپنے جوانوں سے کہا کہ تم یہیں گدھے کے پاس ٹھیرو ۔ میں اور یہ لڑکا ، دونوں ذرا وہاں تک جاتے ہیں اور سجدہ کر کے پھر تمھارے پاس لوٹ آئیں گے۔‘‘ ﴿۲۲: ۵﴾

 ’’اور ﴿اسحق﴾ نے وہاں قربان گاہ بنائی اور خدا کا نام لیا۔‘‘ ﴿۶۲: ۵۲﴾

خروج میں ہے :

 ’’تب لوگوں نے اُن کا یقین کیا اور یہ سن کر کہ خداوند نے بنی اسرائیل کی خبر لی اور اُن کے دکھوں پر نظر کی ، اُنھوں نے اپنے سرجھکا کرسجدہ کیا۔‘‘ ﴿۴ : ۱۳﴾

زبور میں ہے :

 ’’اے خداوند، تو صبح کو میری آو از سنے گا ۔ میں سویرے ہی تیرے حضور میں نماز کے بعد انتظار کروں گا ۔ ‘‘ ﴿۵:۳﴾

 ’’لیکن میں تیری شفقت کی کثرت سے تیرے گھر میں آؤں گا ۔ میں تیرا رعب مان کر تیری مقدس ہیکل کی طرف رخ کر کے سجدہ کروں گا ۔ ‘‘ ﴿۵:۷﴾

 ’’پر میں تو خداوند کو پکاروں گا اور خداوند مجھے بچا لے گا ۔ صبح و شام اور دوپہر کو میں فریاد کروں گا اور نالہ کروں گا اور وہ میری آواز سن لے گا ۔ ‘‘ ﴿۵۵: ۶۱-۷۱﴾

 ’’سمندر اُس کا ہے ۔ اُسی نے اُس کو بنایا ہے اور اُسی کے ہاتھوں نے خشکی کو بھی تیار کیا۔ آؤ، ہم رکوع و سجود کریں اور اپنے خالق خداوند کے حضور گھٹنے ٹیکیں، کیونکہ وہ ہمارا خدا ہے ۔ ‘‘ ﴿۵۹: ۵-۶﴾

 ’’میں تیری مقدس ہیکل کی طرف رخ کر کے سجدہ کروں گا اور تیری شفقت اور سچائی کی خاطر تیرے نام کا شکر کروں گا ، کیونکہ تو نے اپنے کلام کو اپنے ہر نام سے زیادہ عظمت دی ہے ۔ ‘‘ ﴿۸۳۱: ۲﴾

سلاطین اول میں ہے:

 ’’جب تیری قوم اسرائیل تیرا گناہ کرنے کے باعث اپنے دشمنوں سے شکست کھائے اور پھر تیری طرف رجوع لائے اور تیرے نام کا اقرار کر کے اور اُس گھر کی طرف رخ کر کے نماز پڑھے اور تجھ سے مناجات کرے تو تو آسمان پر سے سن کر اپنی قوم بنی اسرائیل کا گناہ معاف کرنا اور اُن کو اُس ملک میں جو تو نے اِن کے باپ دادا کو دیا ، پھر لے آنا۔‘‘ ﴿۸: ۳۳- ۴۳﴾

یرمیاہ میں ہے :

 ’’تو خداوند کے گھر کے پھاٹک پر کھڑا ہو اور وہاں اِس کلام کی منادی کرا دو کہ : اے یہوداہ کے سب لوگو جو خداوند کے حضور سجدہ ریز ہونے کے لیے اِن پھاٹکوں سے داخل ہوتے ہو، خداوند کا کلام سنو۔‘‘ ﴿۷:۲﴾

دانیال میں ہے :

 ’’جب دانیال کو معلوم ہوا کہ نوشتہ پر دستخط ہو گئے تو وہ اپنے گھر آیا اور اپنی کوٹھڑی کا دروازہ جو بیت المقدس کی طرف تھا، کھول کر اور دن میں تین مرتبہ گھٹنے ٹیک کر اپنے پروردگار کے حضور میں اُسی طرح نماز پڑھتا اور تسبیح و تحمید کرتا رہا ، جس طرح پہلے کرتا تھا۔ ‘‘ ﴿۶: ۰۱﴾

 ’’اور میں نے خداوند خدا کی طرف رخ کیا اور نماز اور دعاؤں کے ذریعے سے اور روزہ رکھ کر اور ٹاٹ اوڑھ کر اور راکھ پر بیٹھ کر اُس کا طالب ہوا ۔ ‘‘ ﴿۹: ۳﴾

متی میں ہے :

 ’’اور لوگوں کو رخصت کر کے ﴿یسوع﴾ تنہا نماز پڑھنے کے لیے پہاڑ پر چڑھ گیا اور جب شام ہوئی تو وہاں اکیلا تھا۔‘‘ ﴿۴۱: ۳۲﴾

 ’’اُس وقت یسوع اُن کے ساتھ گتسمنی نام ایک جگہ میں آیا اور اپنے شاگردوں سے کہا : یہیں بیٹھے رہنا ، جب تک کہ میں وہاں جا کر نماز پڑھ لوں۔ ‘‘ ﴿۶۲: ۶۳﴾

 ’’پھر ذرا آگے بڑھا اور سجدہ ریز ہوا اور نماز پڑھتے ہوئے یوں دعا کی کہ اے میرے باپ، اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے ٹل جائے ۔ ‘‘ ﴿۶۲: ۹۳﴾

مرقس میں ہے :

 ’’اور وہ صبح سویرے اٹھ کر نکلا اور ایک ویران جگہ میں گیا اور وہ اُس جگہ نماز پڑھا کرتا تھا۔‘‘ ﴿۱: ۵۳﴾

لوقا میں ہے :

 ’’او ر اُن سے کہا : تم سوتے کیوں ہو ، اٹھو اور نماز پڑھو تاکہ آزمایش میں نہ پڑو۔‘‘ ﴿۲۲:۶۴﴾

اعمال میں ہے :

 ’’پطرس اور یوحنا نماز کے وقت ، یعنی دن کی نویں گھڑی میں ۹۲ ò ہیکل کو جا رہے تھے ۔ ‘‘ ﴿۳:۱﴾

 ’’دوسرے دن جب وہ راہ میں تھے اور شہر کے نزدیک پہنچے تو پطرس ساتویں گھڑی ۰۳ ò کے قریب کوٹھے پر نماز پڑھنے کو چڑھا۔‘‘ ﴿۰۱:۹﴾

 ’’اور اُس پر غور کر کے اُس یوحنا کی ماں مریم کے گھر آیا جو مرقس کہلاتا ہے ۔ وہاں بہت سے آدمی جمع ہو کر نماز پڑھ رہے تھے۔ ‘‘ ﴿۲۱ :۲۱﴾

 ’’اور سبت کے دن ہم شہر کے دروازے کے باہر ندی کے کنارے گئے ، جہاں نماز کا معمول تھا اور بیٹھ کر اُن عورتوں سے جو اکٹھی ہوئی تھیں ، کلام کرنے لگے۔‘‘﴿۶۱: ۳۱﴾

 ’’اور آدھی رات کے قریب پولس اور سیلاس نماز پڑھ رہے اور اللہ کی تسبیح کر رہے تھے اور قیدی ﴿اُن کی یہ تسبیح و مناجات﴾ سن رہے تھے ۔ ‘‘ ﴿۶۱: ۵۲﴾

 ’’اُس نے یہ کہہ کر گھٹنے ٹیکے اور اُن سب کے ساتھ نماز پڑھی ۔‘‘ ۱۳  ﴿۰۲: ۶۳﴾

یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ نماز ہمیشہ سے پانچ وقت ہی ادا کی جاتی رہی ہے ۔ ابوداؤد کی ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ یہ بات خود جبریل امین نے ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی۔ اِس میں شبہ نہیں کہ یہود کے ہاں اب تین نمازیں ہیں اور اوپر کے اقتباسات میں بھی ایک جگہ تین ہی نمازوں کا ذکر ہوا ہے ، لیکن لوئی گنز برگ نے یروشلم کی تالمود پر اپنی تحقیقات میں واضح کیا ہے کہ یہود کے ہاں بھی یہ رواج بالکل اُسی طرح ہوا ، جس طرح ہمارے ہاں اہل تشیع نے جمع بین الصلوٰتین کے طریقے پر ظہر اور عصر اور مغرب اور عشا کو اکٹھا کر کے پانچ نمازوں کو عملاً تین نمازوں میں تبدیل کر لیا ہے۔ اُس نے بتایا ہے کہ تالمود کے زمانے میں یہود دن میں پانچ وقت نماز کے لیے جمع ہوتے تھے : تین مرتبہ اُن نمازوں کے لیے جو اِس وقت بھی ادا کی جاتی ہیں اور دو مرتبہ ’ شیما‘ کی تلاوت کے لیے ۔ تاہم بعد میں بعض عملی دشواریوں کے پیش نظر صبح اور شام کی دو دو نمازوں کو جمع کر کے وہ صورت پیدا کر لی گئی جو اب رائج ہے ۔ 

نزول قرآن کے بعد اب سورۂ فاتحہ نماز کی دعا ہے ۔ بائیبل سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کے لیے اِس طرح کی دعا تمام الہامی کتابوں میں نازل کی گئی ۔

تورات کی دعا یہ ہے :

 ’’خداوند، خداوند، خداے رحیم اور مہربان، قہر کرنے میں دھیمااور شفقت اور وفا میں غنی ۔ ہزاروں پر فضل کرنے والا ۔ گناہ اور تقصیر اور خطا کار کا بخشنے والا، لیکن وہ مجرم کو ہرگز بری نہیں کرے گا ، بلکہ باپ دادا کے گناہ کی سزا اُن کے بیٹوں اور پوتوں کو تیسری اور چوتھی پشت تک دیتا ہے ۔‘‘ ۴۳  ﴿خروج ۴۳: ۶-۷﴾

زبور کی دعا یہ ہے :

 ’’اے خداوند، اپنا کان جھکا اور مجھے جواب دے ، کیونکہ میں مسکین اور محتاج ہوں ۔ میری جان کی حفاظت کر، کیونکہ میں دین دار ہوں ۔ اے میرے خدا، اپنے بندے کو جس کا توکل تجھ پر ہے ، بچا لے ۔ یارب ، مجھ پر رحم کر، کیونکہ میں دن بھر تجھ سے فریاد کرتا ہوں ۔ یا رب ، اپنے بندے کی جان کو شاد کر دے، کیونکہ میں اپنی جان تیری طرف اٹھاتا ہوں ۔ اِس لیے کہ تو یارب، نیک اور معاف کرنے کو تیار ہے اور اپنے سب دعا کرنے والوں پر شفقت میں غنی ہے ۔

 اے خداوند ، میری دعا پر کان لگا اور میری منت کی آواز پر توجہ فرما۔ میں اپنی مصیبت کے دن تجھ سے دعا کروں گا ، کیونکہ تو مجھے جواب دے گا ۔ یا رب ، معبودوں میں تجھ سا کوئی نہیں اور تیری صنعتیں بے مثال ہیں۔ یا رب ، سب قو میں جن کو تو نے بنایا آ کر تیرے حضور سجدہ کریں گی اور تیرے نام کی تمجید کریں گی ، کیونکہ تو بزرگ ہے اور عجیب و غریب کام کرتا ہے ۔ تو ہی واحد خدا ہے ۔

 اے خداوند ، مجھ کو اپنی راہ کی تعلیم دے ۔ میں تیری راستی میں چلوں گا ۔ میرے دل کو یک سوئی بخش تاکہ تیرے نام کا خوف مانوں ۔ یا رب ، میرے خدا ، میں پورے دل سے تیری تعریف کروں گا۔ میں ابد تک تیرے نام کی تمجید کروں گا، کیونکہ مجھ پر تیری بڑی شفقت ہے ۔ اور تو نے میری جان کو پاتال کی تہ سے نکالا ہے ۔

 اے خدا، مغرور میرے خلاف اٹھے ہیں اور تند خو جماعت میری جان کے پیچھے پڑی ہے اور اُنھوں نے تجھے اپنے سامنے نہیں رکھا۔ لیکن تو یا رب ، رحیم وکریم خدا ہے ۔ قہر کرنے میں دھیما اور شفقت و راستی میں غنی۔ میری طرف متوجہ ہو اور مجھ پر رحم کر۔ اپنے بندے کو اپنی قوت بخش اور اپنی لونڈی کے بیٹے کو بچا لے ۔ مجھے بھلائی کا کوئی نشان دکھا تاکہ مجھ سے عداوت رکھنے والے اُسے دیکھ کر شرمندہ ہوں ، کیونکہ تو نے اے خداوند، میری مدد کی اور مجھے تسلی دی ہے۔‘‘﴿۶۸: ۱-۷۱﴾

انجیل کی دعا یہ ہے :

 ’’اے ہمارے باپ، تو جو آسمان پر ہے ، تیرا نام پاک مانا جائے ۔ تیری بادشاہی آئے ۔ تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے ، زمین پر بھی ہو۔ ہماری روز کی روٹی آج ہمیں دے ۔ اور جس طرح ہم نے اپنے قرض داروں کو معاف کیا ہے ، تو بھی ہمارے قرض ہمیں معاف کر۔ اور ہمیں آزمایش میں نہ لا، بلکہ برائی سے بچا ، کیونکہ بادشاہی اور قدرت اور جلال ہمیشہ تیرے ہی ہیں ۔ آمین ۔ ‘‘ ﴿متی ۶: ۹-۳۱﴾

یہ نماز کی تاریخ ہے ۔ اِس سے واضح ہے کہ قرآن نے جب لوگوں کو اِس کا حکم دیا تو یہ اُن کے لیے کوئی اجنبی چیز نہ تھی۔ وہ اِس کے آداب و شرائط اور اعمال و اذکار سے پوری طرح واقف تھے۔ چنانچہ اِس بات کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ قرآن اِس کی تفصیلات بیان کرتا۔ دین ابراہیمی کی ایک روایت کی حیثیت سے یہ جس طرح ادا کی جاتی تھی ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے حکم پر بعض ترامیم کے ساتھ اِسے ہی اپنے ماننے والوں کے لیے جاری فرمایا اور نسلاً بعد نسلٍ ، وہ اُسی طرح اِسے ادا کر رہے ہیں ۔ چنانچہ اِس کا ماخذ اب مسلمانوں کا اجماع اور اُن کا عملی تواتر ہے ۔ اِس کی تفصیلات ہم اِسی سے اخذ کر کے اگلی پوسٹس میں بیان کریں گے۔

غامدی۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خاتم النبیین حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم

وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو

علامہ محمد اقبال  

نبی ﷺ نے فرمایا: ’’بنی اسرائیل کی قیادت انبیاء ؑ کیا کرتے تھے۔ جب کوئی نبی مر جاتا تو دوسرا نبی اس کا جانشین ہوتا، مگر میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا، بلکہ خلفاء ہوں گے‘‘۔ (صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب ما ذکر عن بنی اسرایل)

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’میری اور مجھ سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک عمارت بنائی اور خوب حسین و جمیل بنائی مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹی ہوئی تھی۔ لوگ اس عمارت کے گرد پھرتے اور اس کی خوبی پر اظہار ِ حیرت کرتے تھے، مگر کہتے تھے کہ اس جگہ اینٹ کیوں نہ رکھی گئی؟ تو وہ اینٹ میں ہوں، اور میں خاتم النبیین ہوں (یعنی میرے آنے پر نبوت کی عمارت مکمل ہو چکی، اب کوئی جگہ باقی نہیں ہے جسے پر کرنے کے لیے کوئی آئے) (دیکھیے، صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النبیین) مسند ابو داؤد میں اس کے آخری الفاظ یہ ہیں: ’’ختم بی الانبیاء‘‘ میرے ذریعے انبیاء کا سلسلہ ختم کیا گیا۔

آپؐ نے فرمایا کہ: ’’ مجھے چھ باتوں میں انبیاء پر فضیلت دی گئی ہے، 

۱۔ مجھے جامع اور مختصر بات کہنے کی صلاحیت دی گئی

۲۔ مجھے رعب کے ذریعے نصرت دی گئی

۳۔ میرے لیے اموال ِ غنیمت حلال کیے گئے 

۴۔ میرے لیے زمین کو مسجد بھی بنایا گیا اور پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ بھی 

۵۔ مجھے تمام دنیا کے لیے رسول بنایا گیا

۶۔ اور میرے اوپر انبیاءؑ کا سلسلہ ختم کر دیا گیا۔ (مسلم، ترمذی، ابن ِ ماجہ)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 

’’رسالت اور نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ میرے بعد اب نہ کوئی رسول ہے نہ نبی‘‘۔ (ترمذی، کتاب الرؤیا، باب ذہاب النبوۃ)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میرے بعد کوئی نبوت نہیں ہے، صرف بشارت دینے والی باتیں ہیں‘‘۔ عرض کیا گیا، وہ بشارت دینے والی باتیں کیا ہیں یا رسول اللہ؟ فرمایا: ’’اچھا خواب، یا فرمایا، صالح خواب‘‘۔ (مسند احمد، مرویات ابو الطفیل، نسائی، ابو داؤد)

نبی ﷺ نے فرمایا:

’’میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمرؓ بن الخطاب ہوتے‘‘۔ (ترمذی، کتاب المناقب)

امت ِ مسلمہ میں آنے والے جھوٹوں سے بھی آپ ﷺ نے قبل از وقت خبر دار کر دیا:

ثوبان سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ میری امت میں تیس کذّاب ہوں گے، جن میں سے ہر ایک نبی ہونے کا دعویٰ کرے گا، حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں‘‘۔ (ابو داؤد، کتاب الفتن)

آپ ﷺ نے فرمایا: 

’’میرے بعد کوئی نبی نہیں، اور میری امت کے بعد کوئی امت نہیں‘‘۔ (بہیقی، کتاب الرؤیا۔ طبرانی)

ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آپؐ آخری نبی ہیں، آپؐ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے، نبوت کا سلسلہ آپؐ پر ختم ہو چکا ہے اور آپؐ کے بعد جو بھی رسول یا نبی ہونے کا دعویٰ کریں وہ دجال و کذاب ہیں۔ قرآن کے الفاظ ’’خاتم النبیین‘‘ خود اس معاملے میں حجت ہیں اور نص صریح ہیں، سوچنے کی بات ہے کہ قرآن اور سنت خود ایک لفظ کی تشریح کر رہے ہیں، تو کوئی دوسرا معنی قبول کرنا تو درکنار اس کی جانب توجہ بھی نہیں کی جا سکتی۔

نبی اکرم ﷺ کی حیات کے آخری عرصے میں مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کیا، اور نبی اکرم ﷺ کے وصال کے فوراً بعد حضرت ابوبکر ؓ نے اس کے خلاف لشکر کشی کی، اور جن لوگوں نے اس کی نبوت تسلیم کی ان کے خلاف صحابہ اکرامؓ نے بالاتفاق جنگ کی۔یہ شخص (مسیلمہ کذّاب) رسول اللہ ﷺ کی نبوت کا منکر نہ تھا، بلکہ اس کا دعویٰ تھا کہ اسے حضور ؐ کے ساتھ شریک ِ نبوت بنایا گیا ہے، رسول اللہ ﷺ کو اس نے جو خط لکھا اس کے الفاظ یہ ہیں: 

’’مسیلمہ رسول اللہ کی جانب سے محمد رسول اللہ کی طرف، آپ پر سلام ہو۔ آپ کو معلوم ہو کہ میں آپ کے ساتھ نبوت کے کام میں شریک کیا گیا ہوں‘‘۔

مورخ طبری کے مطابق مسیلمہ کے ہاں جو اذان دی جاتی تھی اس میں ’’اشہد انّ محمدا رسول اللہ‘‘ کے الفاظ بھی تھے، اس صریح اقرارِ رسالت ِ محمدیؐ کے باوجود اسے کافر اور خارج از ملّت قرار دیا گیااور اس سے جنگ کی گئی۔ یہ اجماعِ صحابہ کی بہترین مثال ہے۔

دور ِ صحابہؓ سے لیکر آج تک ہر زمانے کے، اور پوری دنیائے اسلام کے ہر ملک کے علماء اس عقیدے پر متفق ہیں کہ محمد ﷺ کے بعد کوئی شخص نبی نہیں ہو سکتا، اور یہ کہ جو بھی آپؐ کے بعد اس منصب کا دعویٰ کرے، یا اس کو مانے، وہ کافر اور ملّت اسلامیہ سے خارج ہے  یہ معاملہ کس قدر اہمیت کا حامل ہے، اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے:

امام ابو حنیفہؒ کے زمانے میں ایک شخص نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا، اور کہا کہ’’ مجھے موقع دو کہ میں اپنی نبوت کی علامات پیش کروں‘‘، اس پر امام اعظم نے فرمایا کہ: ’’جو شخص اس سے نبوت کی علامت طلب کرے گا وہ بھی کافر ہو جائے گا، کیونکہ رسول اللہ ﷺ فرما چکے ہیں کہ: لا نبی بعدی‘‘۔ 

(مناقب الامام الاعظم ابی حنیفہ لابن احمد المکی، ج۱، ص۱۶۱، طبع حیدر آباد ۱۳۲۱ ھ)

تفسیر کشاف میں علامہ زمخشری لکھتے ہیں: 

’’اگر تم کہو کہ نبیؐ آخری نبی کیسے ہوئے جبکہ عیسیؑ آخری زمانے میں نازل ہوں گے؟ تو میں کہوں گا کہ آپؐ کا آخری نبی ہونا اس معنی میں ہے کہ آپؐ کے بعد کوئی شخص نبی نہ بنایا جائے گا اور عیسیؑ ان لوگوں میں سے ہیں جو آپ ؐ سے پہلے نبی بنائے جا چکے تھے، اور جب وہ نازل ہوں گے تو شریعت ِ محمدیہ کے پیرو اور آپؐ کے قبلے کی طرف نماز پڑھنے والے کی حیثیت سے نازل ہوں گے، گویا کہ وہ آپ ﷺ ہی کی امت کے ایک فرد ہیں‘‘۔

 (تفسیر کشاف، ج۲، ص۲۱۵)

امام بیضاویؒ بھی خاتم النبیین کی یہی تشریح کرتے ہیں: 

’’آپؐ انبیاء میں سے آخری ہیں، جس سے انبیاء ؑ کے سلسلے پر مہر لگ گئی ہے، اور عیسیؑ کا آپؐ کے بعد نازل ہونا اس ختم ِ نبوت میں قادح نہیں ہے، کیونکہ جب وہ نازل ہوں گے تو آپؐ ہی
کے دین پر ہوں گے‘‘۔ (انوار التنزیل، ج۴، ص۱۶۴)

دنیائے اسلام کا جائزہ لیں توہندوستان سے لیکر مراکش اور اندلس اور ترکی سے لیکر یمن تک ہر صدی میں ہر مسلمان ملک کے اکابر علماء فقہاء اور محدثین و مفسرین متفقہ طور پر ’’خاتم النبیین ‘‘ کے معنی آخری نبی ہی سمجھتے رہے ہیں، حضور ﷺ کے بعد نبوت کے دروازے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند تسلیم کرنا ہر زمانے میں تمام مسلمانوں کا متفق علیہ عقیدہ رہا ہے، اور اس امر میں مسلمانوں کے درمیان کبھی کوئی اختلاف نہیں رہا ہے کہ جو شخص محمد ﷺ کے بعد رسول یا نبی ہونے کا دعویٰ کرے اور جو اس کے دعوے کو مانے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔(دیکھیے: تفہیم القرآن، ج۴، ص۱۵۱)

سوچنے کا مقام ہے کہ نبوت ایک بہت ہی نازک معاملہ ہے، جس میں ذرا سی کوتاہی کفر تک پہنچا دیتی ہے، اسی لیے اللہ تعالی نے اس معاملے کو نہ اپنی کتاب میں مبہم چھوڑا ہے نہ اپنے نبی کی احادیث میں۔ صحابہ اکرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجماع بھی امت کے سامنے ہے، اور اس کے بعد کی پوری تاریخ بھی، جب کہیں بھی کسی جھوٹے مدعی نبوت کو جڑ پکڑنے نہیں دیا گیا، کیونکہ یہ کفر اور ایمان کا معاملہ ہے۔

ختم ِ نبوت امت ِ مسلمہ کے لیے بہت بڑی رحمت ہے، اس کی موجودگی میں امت میں ایک عالمگیر وجود اور عالمی برادری بنی ہے۔اگر نبوت کا دروازہ حتمی طور پر بند نہ ہوتا تو امت کو یہ وحدت حاصل نہ ہو سکتی تھی۔

📌 میں کلمہ طیبہ لآالٰہ الّااللہ محمدرسول الله

 کا اقرار کرتے ہوئے  اپنے ایمان کی تجدید کرتی  ہوں کہ میں اللہ وحدہٗ لاشریک کو اپنا خالق و مالک اور معبودِ برحق سمجھتی ہوں…

📌 اس کی جانب سے نازل کردہ تمام انبیاء و رسل علیہم السلام اور ان پر نازل کردہ کتب کو برحق سمجھتی ہوں..

📌 میں اقرار کرتی ہوں کہ سیدالکونین، خاتم النبیین، ساقئ کوثر، شافع محشر، 

حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم الله  کے آخری رسول ہیں، نبوت و رسالت کا سلسلہ حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوچکا ہے.. 

📌 آپ کے بعد کسی بھی نبوت کے دعویدار، ظلی یا ذیلی نبوت کے مدعی کو کافر، زندیق، کذاب اور واجب القتل سمجھتی ہوں..

📌 میں ایمان رکھتی ہوں کہ آپؐ کے بعد کسی دوسرے نبوت کے دعویدار بالخصوص زندیقِ زماں مرزا غلام احمد قادیانی ملعون کو نبی ماننے والے مرزائیوں اور مرزائیوں کو مسلمان سمجھنے والے ہر شخص کو بلا جھجک کافر اور زندیق سمجھتی ہوں..

📌 میں ہر اس شاتم رسولﷺ کو آئینِ پاکستان اور حکم قرآن کی رو سے سزائے موت کا مطالبہ کرتی ہوں جس زندیق نے شان رسالتﷺ میں توہین کی ہو….

اشہد ان لآ الٰہ الّااللہ وحدہٗ لاشریک لہٗ و اشہد انّ محمداً عبدہٗ ورسولہٗ 

تاجِ و تختِ ختمِ نبوتؐ زندہ باد 

منکرینِ ختم نبوتؐ مردہ باد 

فداک ‌ابی ‌واُمّی یارسول‌اللہﷺ

قرآن مجید میں ذات باری تعالیٰ کے متعلق ”رب العالمین“ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے لئے ”رحمۃ للعالمین“ قرآن مجید کے لئے ”ذکر للعالمین“ اور بیت اللہ شریف کے لئے ”ھدی للعالمین“ فرمایا گیا ہے

عقیدہ ختم نبوت اسلام کا وہ بنیادی عقیدہ ہے جس میں معمولی سا شبہ بھی قابل برداشت نہیں‘ حضرت امام اعظم امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ:

”جو شخص کسی جھوٹے مدعی نبوت (نبوت کا دعویٰ کرنے والا) سے دلیل طلب کرے وہ بھی دائرہ اسلام سے خارج ہے“۔

کیونکہ دلیل طلب کرکے اس نے اجرائے نبوت (نبوت جاری ہے) کے امکان کا عقیدہ رکھا (اور یہی کفر ہے)

اسلام کی بنیاد :

اسلام کی بنیاد توحید ، رسالت اور آخرت کے علاوہ جس بنیادی عقیدہ پر ہے ‘ وہ ہے ”عقیدہ ختم نبوت“  حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر نبوت اور رسالت کا سلسلہ ختم کر دیا گیا۔ آپ سلسلہ نبوت کی آخری کڑی ہیں۔ آپ کے بعد کسی شخص کو اس منصب پر فائز نہیں کیا جائے گا۔

ختم نبوت اسلام کی جان ہے :

یہ عقیدہ  اسلام کی جان ہے ‘ ساری شریعت اور سارے دین کا مدار اسی عقیدہ پر ہے‘ قرآن کریم کی یک سو سے زائد آیات اور آنحضرت کی سینکڑوں احادیث اس عقیدہ پر گواہ ہیں۔ اھل بیت ، تمام صحابہ کرام تابعین عظام، تبع تابعین، ائمہ مجتہدین اور چودہ صدیوں کے مفسرین ‘ محدثین ‘ متکلمین ‘ علماء اور صوفیاء (اللہ ان سب پر رحمت کرے) کا اس پر اجماع ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے:

”ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول الله وخاتم النبیین“ ۔ (الاحزاب:۴۰)

ترجمہ:”حضرت محمد ا تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں‘ لیکن اللہ کے رسول اور نبیوں کو ختم کرنے والے آخری نبی ہیں“۔

تمام مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ ”خاتم النبیین“ کے معنیٰ ہیں کہ: آپ  آخری نبی ہیں‘ آپ  کے بعد کسی کو ”منصب نبوت“ پر فائز نہیں کیا جائے گا۔ عقیدہ ختم نبوت جس طرح قرآن کریم کی نصوص قطعیہ سے ثابت ہے‘ اسی طرح حضور کی احادیث متواترہ سے بھی ثابت  ہے۔ چند احادیث ملاحظہ ہوں:

۱- میں خاتم النبیین ہوں‘ میرے بعد کسی قسم کا نبی نہیں۔ (ابوداؤد ج:۲‘ ص:۲۲۸)

۲- مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا اور مجھ پر نبیوں کا سلسلہ ختم کردیا گیا۔ (مشکوٰة:۵۱۲)

۳- رسالت ونبوت ختم ہوچکی ہے پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ نبی۔ (ترمذی‘ج:۲‘ص:۵۱)

۴- میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو۔ (ابن ماجہ:۲۹۷)

۵- میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں۔ (مجمع الزوائد‘ج:۳ ص:۲۷۳)

ان  ارشادات نبوی میں اس امرکی تصریح فرمائی گئی ہے کہ آپ آخری نبی اور رسول ہیں‘ آپ کے بعد کسی کو اس عہدہ پر فائز نہیں کیا جائے گا‘ آپ سے پہلے جتنے انبیاء علیہم السلام تشریف لائے‘ ان میں سے ہر نبی نے اپنے بعد آنے  والے نبی کی بشارت دی اور گذشتہ انبیاء کی تصدیق کی۔ آپ نے گزشتہ انبیاء  کی تصدیق تو فرمائی مگر کسی نئے آنے والے نبی کی بشارت نہیں دی۔ بلکہ فرمایا:

۱- قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ ۳۰ کے لگ بھک دجال اور کذاب پیدا نہ ہوں‘ جن میں سے ہرایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے۔

0- قریب ہے کہ میری امت میں ۳۰ جھوٹے پیدا ہوں‘ ہرایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں‘ حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں‘ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ ان دو ارشادات میں حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ایسے ”مدعیان نبوت“ (نبوت کا دعویٰ کرنے والے) کے لئے دجال اور کذاب کا لفظ استعمال فرمایا‘ جس کا معنیٰ ہے کہ: وہ لوگ شدید دھوکے باز اور بہت زیادہ جھوٹ بولنے والے ہوں گے‘ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرکے مسلمانوں کو اپنے دامن فریب میں پھنسائیں گے‘ لہذا امت کو خبردار کردیا گیا کہ وہ ایسے عیار و مکار مدعیان نبوت اور ان کے ماننے والوں سے دور رہیں۔ آپ کی اس پیشنگوئی کے مطابق ۱۴۰۰ سو سالہ دورمیں بہت سے کذاب اور دجال مدعیان نبوت کھڑے ہوئے جن کا حشر تاریخ اسلام سے واقفیت رکھنے والے خوب جانتے ہیں۔ماضی قریب میں ”قادیانی دجال“ (مرزا غلام احمد قادیانی) نے بھی نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا‘ خدا نے اس کو ذلیل کیا۔ اس لئے یہ ”ختم نبوت“ امت محمدیہ کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عظیم رحمت اور نعمت ہے‘ اس کی پاسداری اور شکر پوری امت محمدیہ پر واجب ہے۔

وراثت کے احکام قرآن مجید کی روشنی میں

قرآن کریم میں سورۃ النساء کی  تین آیات ( 11، 12 ،176) میں وراثت کے تفصیلی احکام بیان کیے گئے ہیں، جن کی مزید وضاحت صحیح احادیث میں کی گئی ہے۔ 

ان آیات کے مفہوم سے وراثت کی مکمل تفصیل معلوم ہو جاتی ہے۔

قریبی رشتہ داروں کی وفات کے بعد ان کے چھوڑے گئے، تھوڑے یا زیادہ مال میں، عورتوں اور مردوں کا حصہ ہے۔زمانہ جہالت میں عرب وراثت کے مال سے عورتوں کو حصہ نہیں دیتے تھے بلکہ ان کے نزدیک خود عورت کی حیثیت وراثت کے مال جیسی تھی۔ الله تعالی نے قرآن مجید میں نہ صرف وراثت میں عورت کا حصہ مقرر کیا بلکہ اسی کو پیمانہ بنایا۔ 

وراثت کی تقسیم  سے پہلے دو کام کرنے لازم قرار دئیے گئے ہیں۔

 ۱- اگر میت نے کوئی وصیت کی ہو تو پہلے اسے پورا کیا جائے۔

۲- اگر میت پر کوئی قرض ہو تو پہلے اسے ادا کیا جائے۔

مال کی تقسیم کے وقت اگر خاندان کے یتیم اور مسکین بھی موجود ہوں تو انہیں بھی اس مال میں سے دینا چاہیے۔ یہ سوچ کر ان سے نرمی کا معاملہ کرنا چاہیے کہ اگر وہ خود چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ کر مر گئے ہوتے تو ان کی اولاد کا کیا بنتا۔ وراثت کا مال تقسیم کرنے والوں کو خوفِ خدا کا احساس دلایا گیا ہے تاکہ یتیموں کے حق میں کوتاہی نہ کی جائے۔ یتیم کا مال کھانا اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھرنے جیسا ہے۔

مالِ وراثت کی تقسیم کے سلسلے میں فرمایا کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔ اگر مرنے والا مرد ہے اور اس کی دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو انہیں ترکے کا دو تہائی دیا جائے گا۔ اگر ایک ہی لڑکی وارث ہو تو آدھا ترکہ اس کا ہے۔ اگر میت کی اولاد میں لڑکے لڑکیاں دونوں ہوں تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملنا چاہیے۔ اگر مرنے والے کی کوئی اولاد نہ ہو اور والدین ہی اس کے وارث ہوں تو ماں کو تیسرا حصہ دیا جائے گا اور اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو ماں چھٹے حصہ کی حق دار ہو گی۔ 

 اگر مرنے والی عورت ہو تو اس کے شوہر کو اس کے ترکہ سے  آدھا حصہ  ملے گا بشرطیکہ وہ بے اولاد ہوں۔ اولاد ہونے کی صورت میں ترکہ کا ایک چوتھائی حصہ شوہر کا ہے۔

 میت کی بیوی یا بیویاں ترکہ میں سے چوتھائی کی حقدار ہوں گی اگر وہ بے اولاد ہوں۔ صاحبِ اولاد ہونے کی صورت میں ان کا حصہ آٹھواں ہو گا۔ 

 اگر مرد یا عورت (جس کی میراث تقسیم طلب ہو) بے اولاد بھی ہو اور اس کے ماں باپ بھی زندہ نہ ہوں ، مگر اس کا بھائی یا ایک بہن موجود ہو تو بھائی اور بہن ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا، اور بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو کل ترکہ کے ایک تہائی میں وہ سب شریک ہوں گے۔

ایسا بے اولاد شخص جس کے والدین بھی مر چکے ہوں اسے کلالہ کہتے ہیں۔ اگر ایسے شخص  کی ایک بہن ہو تو وہ اس کے ترکہ میں سے نصف پائے گی۔

 اگر بہن بے اولاد مرے تو بھائی اس کا وارث ہو گا۔ اگر میت کی وارث دو بہنیں ہوں تو وہ ترکے میں سے دو تہائی کی حقدار ہوں گی، اور اگر کئی بھائی بہنیں ہوں تو عورتوں کا ایک حصہ اور مردوں کا دوہرا حصہ ہو گا۔ اللہ تعالی نے وراثت کے تمام احکام کھول کر تفصیل سے بیان کر دئیے تاکہ لوگ بھٹکتے نہ پھریں۔ بے شک اللہ سبحانہ و تعالی ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔ 

اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تم کو ارشاد فرماتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے۔ اور اگر اولاد میت صرف لڑکیاں ہی ہوں یعنی دو یا دو سے زیادہ تو کل ترکے میں ان کا دو تہائی ہے۔ اور اگر صرف ایک لڑکی ہو تو اس کا نصف ہے۔ اور میت کے ماں باپ کا یعنی دونوں میں سے ہر ایک کا ترکے میں چھٹا حصہ ہے۔ بشرطیکہ میت کے اولاد ہو اور اگر اولاد نہ ہو اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں تو ایک تہائی ماں کا حصہ ہے۔ اور اگر میت کے بھائی بھی ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ ہو گا اور یہ تقسیم ترکہ میت کی وصیت کی تعمیل کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض کے ادا ہونے کے بعد جو اس کے ذمہ ہو عمل میں آئے گی تم کو معلوم نہیں کہ تمہارے باپ دادوں اور بیٹوں پوتوں میں سے فائدے کے لحاظ سے کون تم سے زیادہ قریب ہے یہ حصے اللہ کے مقرر کئے ہوئے ہیں اور اللہ سب کچھ جاننے والا ہے حکمت والا ہے۔

آیت:۱۱

یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں۔ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ (النساء-13) اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کر جائے گا اسے اللہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن سزا ہے۔ النساء ۔ 14

۔۔۔۔

آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ”لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر حصہ دیا جائے گا“ یعنی ایک لڑکا لڑکی ایک ایک یا کئی کئی ملی جلی ہوں تو ان کے حصوں میں باہم یہ نسبت ہوگی کہ ہرلڑکے کو دوہرا اور ہرلڑکی کو اکہرا حصہ ملے گا۔ قرآن مجید نے لڑکیوں کو حصہ دلانے میں اس قدر اہتمام کیا ہے کہ لڑکیوں کے حصہ کو اصل قرار دے کر اس کے اعتبار سے لڑکوں کا حصہ بتلایا ہے، اور بجائے ”للأنثیین مثل حظ الذکر“ کے الفاظ سے فرمانے کے ”للذکر مثل حظ الأنثیین“ کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے، جو لوگ بہنوں کو حصہ نہیں دیتے، اور وہ یہ سمجھ کر بادلِ ناخواستہ شرماشرمی معاف کردیتی ہیں کہ ملنے والا تو ہے ہی نہیں تو کیوں بھائیوں سے برائی لیں، ایسی معافی شرعاً معافی نہیں ہے، ان کا حق بھائیوں کے ذمہ واجب رہتا ہے، یہ میراث دبانے والے سخت گناہ گار ہیں، ان میں بعض بچیاں نابالغ بھی ہوتی ہیں ان کو حصہ نہ دینا دوہرا گناہ ہے، ایک گناہ وارث شرعی کے حصہ کو دبانے کا اور دوسرا یتیم کے مال کو کھانے کا۔ (معارف القرآن: ۱/۳۱۹ تا ۳۳۱، سورہٴ نساء: پ:۴) (۲)

یَسْتَفْتُوْنَکَ فِیْ النِّسَآءِ إلخ․ اس آیت کریمہ کا الگ سے کوئی شان نزول نہیں، بلکہ ضمناً خود اس آیت کریمہ سے ہی سمجھ میں آرہا ہے، وہ یہ ہے کہ صحابہٴ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وراثت کلالہ کے متعلق مسائل دریافت کیے تھے، تو اس وقت یہ مکمل آیت کریمہ نازل ہوئی۔ تفسیر: اس آیت کریمہ میں کلالہ کی میراث کا مسئلہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ، لوگ آپ سے میراثِ کلالہ کے باب میں حکم دریافت کرتے ہیں، آپ جواب میں فرمادیجیے کہ اللہ تم کو کلالہ کے باب میں حکم دیتا ہے، وہ یہ ہے کہ اگر کوئی مرجائے، جس کی اولاد نہ ہو، یعنی نہ مذکر نہ موٴنث، اور نہ ماں باپ ہوں، اور اس کے ایک عینی یا علاتی بہن ہو، تو اس بہن کو اس کے تمام ترکہ کا نصف ملے گا، یعنی بعدِ حقوق متقدمہ، اور بقیہ نصف اگر کوئی عصبہ ہوا تو اس کو دیا جائے گا ورنہ پھر اسی پر رد ہوگا، اور وہ شخص اپنی بہن کا وارث کل ترکہ کا ہوگا، اگر وہ بہن مرجائے اوراس کے اولاد نہ ہو اوروالدین بھی نہ ہوں، اور اگر ایسی بہنیں دو یا زیادہ ہوں تو ان کو اس کے ترکہ میں سے دو تہائی ملیں گے، اورایک تہائی عصبہ کو، ورنہ بطورِ رد کے انھیں کو مل جائے، اور اگر ایسی میت کے جس کے اولاد نہ ہو، نہ والدین ہوں خواہ وہ میت مذکر ہو یا موٴنث، وارث چند یعنی ایک سے زیادہ ایسے ہی بھائی بہن ہوں، مرد اور عورت تو ترکہ اس طرح تقسیم ہوگا کہ ایک مرد کو دو عورتوں کے حصہ کے برابر، یعنی بھائی کو دوہرا، بہن کو ا کہرا، لیکن عینی بہن سے علاتی بھائی بہن سب ساقط ہوجاتے ہیں، اور عینی بہن سے کبھی وہ ساقط ہوجاتے ہیں کبھی حصہ گھٹ جاتا ہے، اللہ تعالیٰ تم سے دین کی باتیں اس لیے بیان کرتے ہیں کہ تم ناواقفی سے گمراہی میں نہ پڑو، یہ تو تذکیر واحسان ہے، اور اللہ تعالیٰ ہرچیز کو خوب جانتے ہیں، پس احکام کی مصلحتوں سے بھی مطلع ہیں، اور احکام میں ان کی رعایت کی جاتی ہے، یہ حکمت کا بیان ہے۔ (معارف القرآن: ۲/۶۲۶، ۶۲۷، سورہٴ نساء، پ:۶)

  1. اصحابِ فرائض کے بعد عصبہ نسبی حصہ پاتے ہیں۔ یہ میت کے وہ ورثاء ہیں جن کو اصحابِ فرائض سے بچا ہوا تمام مال مل جاتا ہے اور اصحابِ فرائض نہ ہونے کی صورت میں تمام ترکہ ہی ان کو ملتا ہے۔ عصبہ کی دوقسمیں ہیں: عصبہ نسبی اور عصبہ سببی‘ عصبہ نسبی وہ ہیں جن کا میت سے ولادت کا تعلق ہو اور عصبہ سببی وہ ہیں جن کا میت سے عتاق (غلامی) کا تعلق ہو۔ لیکن آج کل عصبہ کی یہ دوسری قسم ختم ہو چکی ہے۔ عصبہ نسبی کی مزید تین اقسام ہیں:عصبہ بنفسہ، عصبہ بغیرہ اور عصبہ مع غیرہ۔
  1. اصحابِ فرائض اور عصبہ نسبی نہ ہوں تو ترکہ عصبہ سببی کو ملتا ہے۔ عصبہ سببی، غلام کو آزاد کرنے والا ہے جو آج کل نہیں ہے۔
  2. اگر کسی بھی قسم کے عصبہ نہ ہوں تو باقی مال دوبارہ نسبی اصحابِ فرائض میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ اس عمل کو رد کہتے ہیں لیکن اس میں زوجین کو شامل نہیں کیا جاتا کیونکہ یہ سببی یعنی رشتہ زوجیت کے سبب وارث ہوتے ہیں۔
  3. اگر اصحابِ فرائض اور عصبات میں سے کوئی وارث زندہ نہ ہو تو ذوی الارحام کو ترکہ ملتا ہے۔ یہ میت کے وہ رشتہ دار ہیں جن کا حصہ قرآن وحدیث میں مقرر نہیں ہے، نہ اجماع سے طے پایا ہے اور نہ وہ عصبات ہیں، جیسے پھوپھی، خالہ، ماموں، بھانجہ اور نواسہ وغیرہ۔
  4. اگر ذوی الارحام بھی نہ ہوں تو مولی الموالات کو ترکہ ملتا ہے۔ فقہ کی اصطلاح ایک خاص قسم کے معاہدہ کو موالات کہتے ہیں۔ میراث میں یہ عقد احناف کے ہاں معتبر ہے جبکہ شوافع کے نزدیک معتبر نہیں ہے۔ اس کے مولی بننے کی کچھ شرائط ہیں لیکن یہاں تفصلات میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
  5. مذکورہ بالا ورثاء میں سے کوئی نہ ہو تو وہ شخص وارث ہو گا جس کے لیے میت نے اپنے غیر سے نسب کا اقرار کیا ہو یعنی کسی مجہول النسب کے بارے میں یہ کہا ہو کہ یہ میرا بھائی یا چچا ہے، اور اس کے اس اقرار سے اس کا نسب اس غیر سے ثابت نہ ہوا ہو، اور اقرار کرنے والے نے اپنے اقرار سے موت تک رجوع بھی نہ کیا ہو تو وہ مقرلہ بھائی یا چچا ہونے کی حثیت سے وارث ہو گا۔ اس کی بھی کچھ شرائط ہیں۔
  6. اگر مذکورہ بالا ورثاء میں سے کوئی نہ ہو اور میت نے کسی کے لیے ایک تہائی سے زائد یا سارے ترکہ کی وصیت کی ہو تو تہائی سے زائد یا سارا ترکہ اسی کو دے دیا جائے گا۔
  7. اگر مذکورہ بالا تمام لوگوں میں سے کوئی بھی نہ ہو تو میت کا ترکہ بیت المال میں جمع کروا دیا جائے گا۔

آخر میں ایک قابل توجہ بات بیان کرنا ضروری ہے کہ وراثت سے حصہ پانے کے لیے وارث اور مورث کا دین ایک ہونا ضروری ہے کیونکہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لاَ يَرِثُ المُسْلِمُ الكَافِرَ وَلاَ الكَافِرُ المُسْلِمَ.

مسلمان کسی کافر کا وارث نہیں ہوتا اور نہ ہی کافر کسی مسلمان کا وارث ہو سکتا ہے۔

بخاري، الصحيح، كتاب الفرائض، باب لا يرث المسلم الكافر ولا الكافر المسلم وإذا أسلم قبل أن يقسم الميراث فلا ميراث له، 6: 2484، رقم: 6383

مذکورہ بیان کردہ ترتیب سے ہی ورثاء میں حصے تقسیم کیے جائیں گے۔ یاد رہے کہ بعض اوقات کچھ ورثاء کی موجودگی میں کچھ دوسرے ورثاء محروم ہوجاتے ہیں، جیسے قریبی وارث کی موجودگی میں دور والا وارث محروم ہو جاتا ہے۔

 

YouTube channel Guide.

اگر آپ یوٹیوبر ہیں تو آپ کا کام عموما ان 4 مراحل میں ہوتا ہے
(1) مواد کا انتخاب اور ویڈیو کی تیاری
(2) ریکارڈنگ اور شوٹنگ
(3) ایڈیٹنگ اور اپلوڈنگ
(4) تشہیر

کوشش کریں کہ ان میں سے ہر مرحلے پر ہر روز کام کریں۔

یعنی ایک ویڈیو کی پبلسٹی کر رہے ہوں تو اس کے بعد والی ویڈیو کی ایڈیٹنگ ہورہی ہو اور اس کے بعد والی ویڈیو کی ریکارڈنگ اور شوٹنگ چل رہی ہو اور اس کے بعد والی ویڈیو کی تیاری چل رہی ہو۔
یوں اگر آپ ہر روز بیک وقت ان چار ویڈیوز پر کام جاری رکھیں گے تو ہر روز ایک ویڈیو اپلوڈ کرنا آپ کے لیے مشکل نہیں رہے گا۔

یوٹیوب کی انتظامیہ ہر اس چینل کو وائرل کرتی ہے جس میں مواد سرچیبل ہو اور ویڈیوز تسلسل کے ساتھ اپلوڈ کی جارہی ہوں ، اگر ان دو چیزوں کا خیال رکھ رہے ہیں تو ہمت نہ ہاریں ، جلد یا بدیر آپ بھی ایک کامیاب یوٹیوبر ہوں گے۔ 🙂

مزید صحیح رخ پر کام کرتے رہنے کے لیے میری کتاب "یوٹیوب چینل گائیڈ” سے استفادہ کریں۔

طالبِ دعا:
محمد اسامہ سَرسَری 

راز دار اور راز دان کے متعلق

فارسی کا ایک دلچسپ قاعدہ

راز دار اور راز دان سے متعلق فارسی کا دل چسپ قاعدہ بھی سمجھ لیں ، اس سے ان شاء اردو میں آپ کے پاس مرکبات کا بڑا ذخیرہ آجائے گا نیز آپ خود بھی نئی تراکیب بنا سکیں گے۔

قاعدہ یہ ہے کہ مضارع سے دال گرائیں تو امر حاضر بنتا ہے پھر امر حاضر سے پہلے اگر اسم لگا دیں تو اسم فاعل بن جاتا ہے جیسے داشتن (رکھنا) سے مضارع ہے "دارد” جس سے امر حاضر بنا "دار” ، دار کے شروع میں اسم (راز) لگایا تو بنا راز دار ، یعنی راز رکھنے والا۔
اسی طرح دانستن (جاننا) سے مضارع ہے "داند” ، اس سے امر حاضر ہے "دان” ، اس کے شروع میں اسم (راز) لگانے سے بنا راز دان ، یعنی راز جاننے والا

اس کی مزید مثالیں دیکھیں

دیدن (دیکھنا) ، مضارع: بیند ، امر: بین ، اسم فاعل: دور بی

ساختن (بنانا) ، مضارع: سازد ، امر: ساز ، اسم فاعل: کار ساز
شکستن (توڑنا) ، مضارع: شکند ، امر: شکن ، اسم فاعل: توبہ شکن
نمائیدن (دکھانا) ، مضارع: نماید ، امر: نما ، اسم فاعل: جہاں نما
پائیدن (ٹھہرنا) ، مضارع: پاید ، امر: پا ، اسم فاعل: دیر پا
بُردن (لے جانا) ، مضارع: بَرد ، امر: بَر ، اسم فاعل: دل بر
ربائیدن (لے بھاگنا) ، مضارع: رباید ، امر: ربا ، اسم فاعل: دل ربا
کشائیدن (کھولنا) ، مضارع: کشاید ، امر: کشا ، اسم فاعل: مشکل کُشا
کشیدن (کھینچنا) ، مضارع: کَشد ، امر: کَش ، اسم فاعل: دل کَش
کُشتن (مارڈالنا) ، مضارع: کُشد ، امر: کُش ، اسم فاعل: خود کُش
زدن (مارنا) ، مضارع: زَند ، امر: زَن ، اسم فاعل: راہ زن
پذیرفتن (قبول کرنا) ، مضارع: پذیرد ، امر: پذیر ، اسم فاعل: دل پذیر
نوشیدن (پینا) ، مضارع: نوشد ، امر: نوش ، اسم فاعل: مے نوش
آشامیدن (پینا) ، مضارع: آشامد ، امر: آشام ، اسم فاعل: خون آشام
خوردن (کھانا) ، مضارع: خورد ، امر: خور ، اسم فاعل: آدم خور
افزائیدن (بڑھانا) ، مضارع: افزاید ، امر: افزا ، اسم فاعل: روح افزا
پروردن (پالنا) ، مضارع: پرورد ، امر: پرور ، اسم فاعل: روح پرور
بازیدن (کھیلنا) ، مضارع: بازد ، امر: باز ، اسم فاعل: جاں باز
مالیدن (مَلنا) ، مضارع: مالد ، امر: مال ، اسم فاعل: رو مال
کَردن (کرنا) ، مضارع: کُند ، امر: کُن ، اسم فاعل: کار کُن
کَندن (کھودنا) ، مضارع: کَند ، امر: کَن ، اسم فاعل: گور کَن
نوشتن (لکھنا) ، مضارع: نویسد ، امر: نویس ، اسم فاعل: اخبار نویس
گرفتن (لینا/پکڑنا) ، مضارع: گیرد ، امر: گیر ، اسم فاعل: راہ گیر ، دست گیر
یافتن (پانا) ، مضارع: یابد ، امر: یاب ، اسم فاعل: کام یاب

طالبِ دعا:
محمد اسامہ سَرسَری

راز دار اور راز دان میں فرق

یہ فرق بتانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ بہت سے دوست ان دونوں کو مکمل طور پر ہم معنی مترادف سمجھتے ہیں حالانکہ کسی بھی زبان کے دو مترادف لفظ کبھی بھی مکمل طور پر ہم معنی نہیں ہوتے ، اسی طرح بہت سے دوستوں کو اس فرق میں جہلِ مرکب درپیش ہے کہ وہ رازدان کا وہ مفہوم سمجھتے ہیں جو درحقیقت رازدار کا ہے۔

درست فرق یہ ہے کہ "دان” دانستن (جاننا) سے ہے تو "راز دان” کا مطلب ہے راز کو جاننے والا ، خواہ وہ بااعتماد ہو یا نہ ہو جیسے زبان دان اور نکتہ دان، جبکہ "دار” داشتن (رکھنا) سے ہے تو "راز دار” کا مطلب ہے راز رکھنے والا ، یعنی راز کو بحفاظت اپنے پاس رکھنے والا جیسے ایمان دار اور امانت دار۔

اس لیے وہ راز دان جو باعتماد بھی ہو اسے راز دار کہتے ہیں ورنہ فقط راز دان کہتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ بات کو خفیہ طریقے سے کرنے کے لیے "راز داری سے بات کرنا” کہتے ہیں نہ کہ راز دانی سے۔

راز دار اور راز دان کا لفظی فرق سمجھنے کے لیے راز کی جگہ نا لگادیں ، نادار اور نادان بن جائیں گے۔

نادار: جس کی جیب میں کچھ نہ ہو۔
رازدار: جس کے سینے میں راز ہو۔

نادان: جسے کچھ معلوم نہ ہو۔
رازدان: جسے راز معلوم ہو۔

طالبِ دعا:
محمد اسامہ سَرسَری

مذہب اور دین میں فرق

لفظ "مذھب” اور لفظ "دین” میں مفہوم کے اعتبار سے بڑا فرق ہے، اکرچہ ہمارے ہاں عام طور پر اسلام کو مذھب کہا جاتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پورے قرآن مجید اور حدیث کے ذخیرہ میں اسلام کے لیے مذھب کا لفظ کہیں بھی استعمال نہیں ہوا، بلکہ اس کے لیے ہمیشہ "دین” ہی کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ 

سورۃ آل عمران میں فرمایا گیا ہے کہ: ” اللہ کی بارگاہ میں مقبول دین تو صرف اسلام ہے”۔

دین اور مذھب میں بنیادی فرق کو سمجھ لیجے۔

مذھب کی جزوی حقیقت ہے۔ یہ صرف چند عقائد اور کچھ عبادت کےطور طریقوں کے مجموعے کا نام ہے جبکہ دین سے مراد ہے ایک مکمل نظام زندگی جو تمام پہلوؤں پر حاوی ہو۔ گویا مذھب کے مقابلے میں دین ایک بڑی اور جامع حقیقت ہے۔

اس پس منظر میں شاید یہ کہنا تو درست نہ ہوگا کہ اسلام مذھب نہیں ہے، اس لیے کہ مذھب کے جملہ بھی اسلام میں شامل ہیں، اس میں عقائد کا عنصر بھی ہے، ایمانیات بھی ہیں، پھر اس  میں عبادت یعنی نماز، روزہ ہے، حج اور زکواۃ ہے، چنانچہ صحیح یہ ہوگا کہ یوں کہا جائے کہ اسلام صرف ایک مذہب نہیں بلکہ مکمل دین ہے ۔ 

عام طور پر دین اور مذہب کو ایک دوسرے کے مترادف تصور کیا جاتا ہے، جبکہ ان دونوں میں بنیادی فرق ہے۔ 

دین کل ہے اور کسی بھی نظام کے اصول و ضوابط کا نام ہے۔ نیز دین، دنیا و آخرت کے تمام گوشوں کو محیط ہے اس کے برعکس مذہب جزو ہے جو شرعی عبادات احکامات سے متعلق رہنمائی فراہم کرتا ہے۔

نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی سادگی اور شفقت

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے کائنات کی تخلیق کی اور اپنے عظیم ترین نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بہترین اخلاق سکھایا، ان کے اخلاق و کردار کو پاکیزہ بنایا اور انہیں اپنا دوست بنایا۔

ظہور پذیر حسن اخلاق خفیہ حسن سلوک کا نتیجہ ہے۔ جسم کے اعضاء کی حرکات خیالات کا نتیجہ ہیں اور ظاہری اعمال کردار اور طرز عمل کا نتیجہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو پہچاننے کی کوشش کرنا اور حیرت انگیز خفیہ طاقتوں کا حصول اعمال کا نتیجہ ہے۔ اس خفیہ طاقت کی روشنی کا اظہار حسن کی شاعری کے طور پر کیا جاتا ہے۔

روح اور اعمال کی خوبصورتی. میں سب سے زیادہ حصہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے ۔ ان کی بے شمار خوبیوں میں عاجزی اور سادگی کو ایک اعلیٰ اور ممتاز مقام حاصل ہے۔ قائد کے طور پر اپنے رتبے کے باوجود، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایسا برتاؤ نہیں کیا جیسے وہ دوسرے لوگوں سے بہت بڑے یا بہتر ہوں۔ آپ نے کبھی لوگوں کو چھوٹا، ناپسندیدہ یا شرمندہ محسوس نہیں کروایا۔ آپ نے اپنے پیروکاروں کو نرمی اور عاجزی سے رہنے کی تلقین کی۔ جب بھی ممکن ہوا آپ نے غلاموں کو آزاد کیا اور صدقہ دیا، خاص طور پر غریبوں اور یتیموں کو بغیر کسی اجر کے نوازا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی معتدل مزاج تھے۔ کم کھاتے اور صرف سادہ کھانا کھاتے تھے۔ انہوں نے کبھی پیٹ بھرنے کو ترجیح نہیں دی۔ بعض اوقات، آخری دنوں تک، وہ کچے کھانے کے علاوہ کچھ نہیں کھاتے تھے۔وہ اپنی بھوک مٹانے کے لیے اپنے پیٹ پر پتھر باندھتے تھے اور اگر اس کے پاس کوئی اور خوراک نہ ہو تو دودھ کو کافی سمجھتے تھے۔

سادہ زندگی اور قناعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی اہم تعلیمات تھیں:

’’ان کو دیکھو جو تم سے نچلے درجے پر کھڑے ہوں لیکن ان کی طرف مت دیکھو جو تم سے اونچے درجے پر کھڑے ہیں، کیونکہ اس سے فیض حاصل ہوتا ہے۔ تم اللہ کی قسم (تمہاری نظر میں) حقیر ہو۔”

(مسلم)

آپ فرش پر ایک بہت ہی سادہ گدے پر سوتے تھے اور گھر کے آرام یا سجاوٹ کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔ لوگ ان کی اہلیہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے جو ان کے پہلے اور سب سے وفادار صحابی ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھی پوچھتے تھے کہ وہ گھر میں کیسے رہتے تھے؟

’’ایک عام آدمی کی طرح،‘‘ وہ جواب دیتیں۔

آپ گھر میں جھاڑو لگاتے، اپنے کپڑے خود سلائی کرتے، اپنے جوتے خود ٹھیک کرتے، اونٹوں کو پانی پلاتے، بکریوں کا دودھ نکالتے، نوکروں کو ان کے کام میں مدد دیتے اور ان کے ساتھ کھانا کھاتے۔ اور خود جا کر بازار سے ضرورت کا سامان لے آتے۔”

آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس شاذ و نادر ہی کپڑے کے ایک سے زیادہ جوڑے ہوتے تھے۔ آپ ان کپڑوں کو خود دھو لیتے تھے۔ گھر سے پیار کرنے والے اور پر سکون انسان تھے ۔

’’جب تم کسی گھر میں داخل ہو تو اللہ تعالیٰ سے اس میں برکت مانگو۔‘‘ آپ صلی الله علیہ وسلم فرماتے ۔

ہمیشہ سلام میں پہل کرتے اور کہتے: السلام علیکم – جس کا مطلب ہے: "تم پر سلامتی ہو” – کیونکہ امن و سلامتی اس زمین پر سب سے حیرت انگیز چیز ہے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے غلاموں اور آزادوں دونوں کی دعوت قبول کی۔ انہوں نے بیواؤں اور غریبوں کی دعوت پر لبیک کہا خواہ انہیں دودھ کا پیالہ پیش کیا گیا۔ آپ ولیمہ میں شرکت کی دعوتیں قبول کرتے تھے، جنازوں میں شرکت کرتے تھے، بیماروں کو دیکھنے کے لیے دور دراز جایا کرتے تھے اور خوشبو پسند کرتے تھے لیکن بدبو کے باوجود غریبوں اور مسکینوں کے ساتھ بیٹھتے ، ان کے ساتھ کھانا کھاتے تھے، عزت والوں کی تعظیم کرتے ، ان کو نیکی اور حسن سلوک کی تلقین کرتے تھے۔

رشتہ داروں کے ساتھ کبھی سختی نہیں کی اور جس نے جو بھی عذر پیش کیا اسے قبول کر لیا۔ بعض اوقات وہ بغیر کوئی جھوٹ بولے لطیف بات کہہ دیتے، مسکراتے تھے لیکن کبھی قہقہہ لگا کر ہنستے نہیں تھے۔ آپ نے معصوم کھیل کھیلے اور ایسے کھیل دیکھے جو شیطانی نہیں تھے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی بیویوں کے ساتھ اس قدر خوش مزاج تھے کہ ان کے ساتھ دوڑ بھی لگا لیتے ۔ آپ اور آپ کے گھر والے اونٹوں اور بکریوں کا دودھ پیتے تھے آپ انہیں کھانے پینے اور لباس میں برابر کا حصہ دیتے تھے۔

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اپنا سارا وقت کارآمد طریقے سے استعمال کیا۔ وہ غریب سے ان کی غربت کی وجہ سے نفرت نہیں کرتے تھے اور نہ ہی بادشاہوں سے ان کی حکومت یا طاقت کی وجہ سے ڈرتے تھے۔ امیر ہو یا غریب ادنی ہو یا اعلی آپ صلی الله علیہ وسلم ، لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے تھے۔ اللہ تعالی نے انہیں تمام خوبیوں اور اچھی انتظامی صلاحیتوں سے مزین کیا حالانکہ آپ پڑھے لکھے نہیں تھے اور آپ کا لڑکپن چرواہوں کے ساتھ گزرا۔ آپ بھیڑ بکریاں چراتے تھے۔ اللہ کے تمام انبیاء علیہم السلام کا یہی دستور تھا اور اسی نے آپ کو عاجزی، صبر، رحم اور سادگی کا درس دیا۔ وہ اپنے نوکر کو اپنے پیچھے کسی بھی سواری پر سوار ہونے دیتے تھے خواہ وہ گھوڑا ہو، اونٹ یا گدھا۔ کبھی آپ ننگے پاؤں چلتے تھے اور کبھی آپ کے سر پر پگڑی یا ٹوپی بھی نہیں ہوتی تھی۔ آپ فرماتے تھے کہ (غلام یا نوکر) آپ کے بھائی ہیں اور اللہ نے انہیں آپ کے حکم میں رکھا ہے۔ پس جس کے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ نے اس کے بھائی کو رکھا ہو اسے چاہیے کہ جو کچھ وہ کھاتا ہے اسے کھلائے اور جو پہنتا ہے اسے پہنائے اور اس سے اس کی استطاعت سے زیادہ کام نہ لے۔ اور اگر وہ اس سے کوئی مشکل کام کرنے کو کہے تو اس میں اس کی مدد کرنی چاہیے۔

(البخاری)

آپ نے اپنے غلاموں کو کبھی نہیں کہا جیسا کہ آپ کے دیرینہ غلام انس رضی اللہ عنہ کو یاد ہے۔ اپنی وفات سے چند روز قبل آپ صلی الله علیہ وسلم مسجد میں اپنے ساتھیوں کے سامنے حاضر ہوئے اور کہا: اے لوگو! تم میں سے جس کی پیٹھ پر میں نے مارا، یہ ہے میری پیٹھ تو وہ مجھ سے بدلہ لے لے۔ تم میں سے جس کا بھی میں نے مال لیا، میں اسے واپس کرنے کے لیے حاضر ہوں۔

سامعین کو حیرت میں ڈال کر ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہا: ’’ہاں آپ نے ایک بار میرے پیٹ پر چوٹ لگائی تھی‘‘۔ مسکراتے ہوئے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کمر کو کھول دیا اور وہ شخص روتے ہوئے اسے چومنے کے لیے دوڑا۔ جب اس سے پوچھا کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟

تو اس نے کہا: "میں چاہتا تھا کہ میری جلد اللہ کے رسول کی جلد کو چھوئے۔”

آپ صلی الله علیہ وسلم اچھے اخلاق کے ساتھ پختہ مومن تھے، ہمیشہ لوگوں کو خوش اخلاقی سے سلام کرتے، اور بزرگوں کا احترام کرتے۔

ایک دفعہ فرمایا:

’’تم میں سے مجھے سب سے زیادہ عزیز وہ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہوں۔‘‘

(البخاری)

ان کے تمام محفوظ شدہ قول و فعل سے ان کا پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک نہایت نرم مزاج، مہربان، عاجز، عمدہ مزاح اور بہترین عقل والے آدمی ہیں۔ وہ بغیر کسی غرور کے سب سے زیادہ شائستہ تھے اور ان کی زبان بغیر کسی طول کے سب سے زیادہ فصیح تھی۔ سب سے بڑھ کر، وہ ایک ایسے شخص تھے جنہوں نے ہر اس بات پر عمل کرکے دکھایا، جس کی وہ تبلیغ کرتے تھے۔ ان کی زندگی، نجی اور عوامی دونوں، اپنے پیروکاروں کے لیے ایک بہترین نمونہ تھی۔

انگلش سے اردو

آخرت کا عقیدہ اور اس کی اہمیت

الآخرۃ (موت کے بعد کی زندگی) پر ایمان اسلامی عقیدے کے لیے اتنا اہم ہے کہ اس کے بارے میں کوئی شک اللہ (خدا) کے انکار کے مترادف ہے۔

قرآن کریم۔ میں اللہ سبحانہ و تعالی کا اپنا کلام اس ایمان کی بنیاد ہے۔ اس کے علاوہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عقیدے کی اہمیت کو ہر اس شخص کے لیے بیان کیا ہے جو اسلامی زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے پاس مرنے کے بعد کی زندگی کو ادراک کے تجربے کے طور پر جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں شعور کی کچھ ایسی سطحیں عطا کی ہیں جو ہمیں ایسے حقائق کی بصیرت فراہم کرتی ہیں جو حواس کے ذریعے محسوس نہیں ہوتیں۔

اس سلسلے میں قرآن کریم ہمیں مطمئن کرنے کے لیے عقلی دلائل دیتا ہے۔

جب وہ ان کافروں کا جواب بتاتا ہے جو یہ پوچھتے ہیں کہ

"مردہ ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا؟”

جواب یقیناً وہی ہے جس نے انہیں پیدا کیا۔

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ انسان سے دلیل کے ساتھ مخاطب ہوتا ہے اور اس کے غور و فکر اور فیصلے کی طاقت کو متوجہ کرتے ہوئے اسے اس بات پر غور کرنے کو کہتا ہے

کہ بارش مردہ زمین کو کیسے زندہ کرتی ہے۔

یہ وہ چیز ہے جو ہم پر عیاں ہے۔

اگر ایسا ہے تو پھر ہم قیامت کی حقیقت سے کیسے انکار کر سکتے ہیں جب کہ اللہ تعالیٰ مردہ ہڈیوں کو اتنی آسانی سے زندہ کر سکتا ہے جس طرح وہ زمین کو زندہ کر دیتا ہے۔

(وہ اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے، پھر وہ بادلوں کو اٹھاتی ہیں، اور ہم انہیں مردہ زمین کی طرف لے جاتے ہیں، اور ہم اس سے زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتے ہیں، اسی طرح قیامت ہو گی۔) :9)

قرآن ہمیں بار بار بتاتا ہے کہ جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں ان کو آخرت میں بہت زیادہ اجر ملے گا، جب کہ کافر اور برے کام کرنے والوں کو سخت سزا دی جائے گی۔

موت کے بعد کی زندگی پر یقین ہماری زندگی کو معنی دیتا ہے، کیونکہ اسی سے علم ہوتا ہے کہ یہ زندگی صرف ایک امتحان اور ابدی زندگی کی تیاری ہے۔

مزید برآں، ہم جانتے ہیں کہ آخرت میں ہمیں ان تمام مظالم پر انصاف ملے گا جن کا ہم یہاں شکار ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ گنہگار اور بدعنوان لوگ، نیک لوگوں سے زیادہ خوش یا دولت مند ہوتے ہیں، لیکن یہ صرف تھوڑے وقت کے لیے ہے۔ آخرت میں ان کو ان کا حق ملے گا۔

موت کے بعد کی زندگی پر یقین انسان کو دنیا میں اچھی زندگی گزارنے کی ترغیب دیتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر وہ قرآن میں دیے گئے اللہ کے احکامات اور تنبیہات کو نظر انداز کرتا ہے تو اس کا نتیجہ کیا ہے۔

درحقیقت، بعد کی زندگی پر یقین انسان کے لیے یہاں نیکی کی زندگی گزارنے کی سب سے مضبوط ترغیب ہے۔ ایک پُرامن معاشرے کی حقیقی راہ اسی صورت میں ہموار ہو سکتی ہے جب لوگ مرنے کے بعد کی زندگی پر یقین رکھتے ہوں۔

عربی عبارتوں کی افہام وتفہیم کے لئے بعض معتمد عربی ڈکشنریاں

تحریر: فاروق عبد اللہ نراین پوری

کسی بھی عربی کتاب میں بہت سارے ایسے الفاظ اور علمی اصطلاحات ہوتے ہیں جہاں تک بہت سارے قارئین کی رسائی نہیں ہوتی، خصوصًا علمائے متقدمین کی کتابوں میں ایسے بے شمار کلمات اور اصطلاحات ہوتے ہیں جن کا صحیح معنی ہمیں معلوم نہیں ہوتا۔ ان مشکل الفاظ کی معرفت اور تفہیم کے لئے ہمیں ڈکشنریوں کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔
اسی طرح جب ہم کوئی علمی مقالہ لکھتے ہیں تو بہت سارے الفاظ کے معانی بیان کرنے کے لئے ڈکشنریوں کا حوالہ دینا پڑتا ہے، لیکن منہجیت کے فقدان کی وجہ سے بسا اوقات بعض مقالےاہل علم کے مابین معیوب بلکہ مضحکہ خیز شمار کئے جاتے ہیں۔ بعض مقالہ نگارشروحاتِ حدیث یا کتبِ تفاسیر یا کتبِ فقہ وغیرہ سے ایسے مشکل الفاظ کا معنی بیان کرتے ہیں جو کہ علمی مقالوں میں ایک معیوب چیز مانی جاتی ہے، الا یہ کہ وہ معنی کتبِ معاجم یا کتبِ غریب میں مقالہ نگار کو کہیں نہ ملے تو ان ثانوی مصادر سے بھی مدد لے سکتا ہے۔ہاں اگر اصل مصادر میں اس کا معنی وضاحت کے ساتھ نہ ہو، اجمال کے ساتھ ہو تو پہلے مصادر اصلیہ سے استفادہ کرنے کے بعد مزید وضاحت کے لئے ان ثانوی مصادر کا حوالہ دے سکتا ہے۔
”ڈکشنری“ کے لئے عربی میں ”معجم“ یا ”قاموس“ کا لفظ مستعمل ہے۔ کسی معجم (ڈکشنری) کا انتخاب کرتے وقت یہ خیال رکھنا چاہئے کہ حتی الامکان وہ متقدم ہو۔ متقدم معاجم میں مطلوبہ معلومات موجود ہونے کے باوجود متأخر معاجم کی طرف رجوع کرنا مناسب نہیں۔ بلکہ بسا اوقات دیکھا جاتا ہے کہ متأخر معجم کے مصنف نے کوئی چیز اپنے متقدمین سے نقل کی ہے اور مقالہ نگار اصل مصدر کا حوالہ نہ دے کر متأخر معاجم کا حوالہ پیش کرتا ہے۔عام طلبہ کے مابین گرچہ یہ چل جاتا ہو لیکن علمی مقالوں میں یہ مناسب نہیں۔
اس لئے کسی معجم سے کسی مشکل کلمہ کا معنی نقل کرتے وقت یہ دھیان رکھنا چاہئے کہ یہ چیز انہوں نے اپنے کسی متقدم سے نقل کی ہے یا نہیں، کیونکہ اکثر متأخرین مصنفین نے اپنے سابقین کی کتابوں پر کام کیا ہے یا سابقین کی کتابیں ان کا اہم مصدر رہی ہیں۔

بطور مثال ملاحظہ فرمائیں:
(1) ابن فارس فرماتے ہیں کہ مقاییس اللغہ میں ان کا اعتماد علمائے سابقین کی ان پانچ کتابوں پر ہے

كتاب العين للخليل، إصلاح المنطق لابن السكيت، جمهرة اللغة لابن دريد، غريب الحديث اور الغريب المصنف لأبي عبيد۔ [مقاییس اللغہ: مقدمہ/504]


(2) امام صغانی کی ”العباب“ نے گویا سابقہ معاجم کو اپنے اندر سمیٹ لیا ہے، خصوصًا كتاب العين، جمهرة اللغة، الصحاح، تهذيب اللغة، اور مقاييس اللغة وغیرہ کو۔ [المعاجم اللغویہ لمحمد احمد ابی الفرج: ص28]


(3) ابن منظور نے لسان العرب میں پانچ کتابوں پر اعتماد کیا ہے، وہ ہیں:

تهذيب اللغة للأزهري، المحكم لابن سيده، الصحاح للجوهري، حواشي ابن بري على الصحاح، والنهاية لابن الأثير۔ فرماتے ہیں: "میری اس کتاب سے نقل کرنے والا یہ سمجھے کہ گویا وہ انہیں پانچ اصولوں (کتابوں ) سے نقل کر رہا ہے”۔ [لسان العرب: 1/8]


(4) فیروز آبادی کی القاموس المحیط کے مراجع میں سے چند اہم مراجع یہ ہیں:

العين للخليل، الجمهرة لابن دريد، الصحاح للجوهري، المحكم لابن سيده، تهذيب اللغة للأزهري، العباب للصغاني۔ [المعاجم اللغویہ لمحمد احمد ابی الفرج: ص29]


(5) فیروزآبادی کی القاموس المحیط پر تاج العروس جیسی ضخیم قاموس کی بنیاد ہے۔ زبیدی نے اس میں القاموس المحیط کی شرح کی ہے اور اس پر کافی استدراک کیا ہے۔
لہذا ان جیسی کتابوں سے کوئی چیز نقل کرتے وقت اصل مصادر کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور حتی الامکان اصل مصادر سے ہی اسے نقل کرنا چاہئے۔
کتب المعاجم سے استفادہ سے پہلے ان معاجم میں الفاظ کی ترتیب کا علم ہونا ضروری ہے۔ متأخرین علما کے یہاں حروف معجم (ا ، ب، ت، ث، ج، ح…) پر ترتیب دینا رائج ومعروف ہے لیکن متقدمین علماکے یہاں بعض کتابوں میں یہ ترتیب موجود نہیں ہے۔ بعض نے اسے مخارج الحروف اور مقلوبات الکلمہ پر مرتب کیا ہے تو بعض نے کلمہ کے آخری حرف پر اسے مرتب کیا ہے۔ اس لئے کسی بھی معجم سے استفادہ سے پہلے اس کی ترتیب کا علم ہونا ضروری ہے تاکہ مطلوبہ کلمہ تک بآسانی پہنچ سکے۔

ذیل میں بطور نمونہ چند مشہور ومعتبر معاجم کی ترتیب بیان کی جارہی ہے۔

مخارج الحروف اور مقلوبات الکلمہ پر مرتب بعض معاجم یہ ہیں


(1) كتاب العين للخليل بن أحمد الفراهيدي (ت170هـ ، وقيل: 175هــ)


یہ پہلی ڈکشنری ہے جو ہم تک پہنچی ہے۔ اسے خلیل نے مخارج الحروف پر مرتب کیا ہے، حلق کے سب سے آخری حصے سے ادا ہونے والے حروف سے شروع کیا ہے اور ہونٹوں سے ادا ہونے والے حروف پر اسے ختم کیا ہے۔ اس لئے اس کی ترتیب اس طرح ہے: ع ح ھ خ غ ق ک ج ش ض ص س ز ط ت د ظ ذ ث ر ل ن ف ب م و ی ا ۔
ان میں سے ہر حرف کو کتاب کا نام دیا ہے۔ مثلًا پہلے حرف کا نام کتاب العین ہے۔ اسی سے کتاب کا نام بھی کتاب العین سے مشہور ہے۔
کتاب میں وارد الفاظ کو انہوں نے الٹ پلٹ کرکے ایک لفظ سے متعدد الفاظ تیار کیے ہیں اور ان پر بحث کی ہے، جسے قلب کہا جاتا ہے۔ مثلًا لفظ "رب” کو لیں، اسے قلب (الٹ پلٹ) کر دیا جائے تو یہ "بر” بن جاتا ہے۔ لفظ "حبر” کو قلب کیا جائے تو یہ الفاظ بنتے ہیں: ربح، بحر، رحب، حرب، برح۔ وقس علی ہذا۔
اس سے بعض کلمات ایسے تیار ہو سکتے ہیں جن کا کوئی معنی نہیں ہے۔ اسی لئے بعض کلمات کے متعلق خلیل نے کہا ہے کہ عرب نے اسے استعمال نہیں کیا ہے، یہ ایک مہمل لفظ ہے۔ حالانکہ ان کے بعد آنے والے علما نے ان پر استدراک بھی کیا ہےاور بعض جن الفاظ کو خلیل نے مہمل قرار دیا تھا انھیں دلائل کی روشنی میں مستعمل قرار دیا ہے۔
اس طریقے پر علمائے مقتدمین میں سے اور بھی دوسرے علما نے کتابیں لکھی ہیں۔

مثلًا:

(2) البارع في اللغة لأبي علي القالي (ت356هـ)


کتاب العین سے قالی نے کافی استفادہ کیا ہے۔ اور ان پر کافی اضافہ بھی کیا ہے خصوصًا جن الفاظ کو خلیل نے مہمل کہا تھا ان میں سے بہت سارے کلمات کے معانی اور کلام عرب سے ان کے شواہد کو ذکر کیا ہے۔ حالانکہ ابو علی القالی پربھی اس حوالے سے ان کے شاگرد ابو بکر الزبیدی نے استدراک کیا ہے اور ”المستدرک من الزیادۃ فی کتاب البارع علی کتاب العین“ نامی کتاب لکھی ہے۔ کتاب البارع کا اکثر حصہ مفقود ہے، اور صرف ایک ٹکڑا مطبوع ہے۔

(3) تهذيب اللغة لأبي منصور الأزهري (ت370هــ)


یہ ایک ضخیم ڈکشنری ہے۔ اس کا مقدمہ بڑا اہم ہے۔ شرعی نصوص سے شواہد کا خوب اہتمام کیا ہے کیونکہ اس کے مؤلف نا صرف لغوی بلکہ معروف شافعی فقیہ بھی تھے۔ اکثر متأخرین لغویوں کا یہ ایک اہم مصدر رہا ہے۔ مثلًا مختار الصحاح، العباب اور لسان العرب وغیرہ کا۔

(4) المحكم والمحيط الأعظم لابن سيده الأندلسي (ت458هـ)


اس کا مقدمہ بڑا طویل ہے۔ اس میں بھی بہ کثرت شواہد کا استعمال کیا گیا ہے۔ صرفی ونحوی مسائل پر کافی بحث موجود ہے۔ اور یہ بعد کی ڈکشنریوں کا ایک اہم مصدر ہے۔

🔷 ڈکشنریوں میں الفاظ کی ترتیب کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ انہیں حروف معجم (ا ب ت ث ج ح ..الخ) پر مرتب کیا جائے۔ اس نہج پر بے شمار ڈکشنریوں کو مرتب کیا گیا ہے۔ بعض نمونے ملاحظہ فرمائیں:

(1) كتاب الجيم لأبي عمرو الشيباني (ت206هـ)


یہ بہت مختصر لیکن بہترین ڈکشنری ہے، مگر صرف نوادر لغت پر مشتمل ہے۔

(2) جمهرة اللغة لابن دريد (ت321هـ)


یہ حروف معجم پر مرتب ہے لیکن کتاب العین کی طرح مقلوبات الکلمہ کا اس میں استعمال ہے۔ اس کا اکثر حصہ ابن درید نے اپنے حافظہ سے املا کروایا ہے، اس لئے اس میں کچھ جگہوں پر انہیں وہم بھی ہوا ہے۔

(3) مقاييس اللغة لابن فارس (ت395هـ)


اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں ہر مادے کا اصل بیان کیا گیا ہے۔ ہر مادے کے مفردات کو بیان کرنے کے ساتھ ابن فارس ایک یا زائد ایسا مشترک معنی بیان کرتے ہیں جس میں اس کے تمام مفردات شامل ہوں۔ چھ جلدوں میں شیخ المحققین عبد السلام محمد ہارون کی تحقیق سے مطبوع ہے۔

(4) مجمل اللغة لابن فارس (395هـ)


یہ کتاب مختصر ہے، مگر بہت ہی محرر انداز میں لکھی گئی ہے۔ غریب القرآن کی خاص رعایت کی ہے۔
دونوں کتابوں میں ابن فارس نے ترتیب میں ہر حرف میں اس کے بعد والے حرف سے ابتدا کی ہے، اور اسی ترتیب سے آگے بڑھے ہیں۔ مثلًا را میں اس کلمہ کو پہلےذکر کیا ہے جو را اور زا سے شروع ہوتا ہے، پھر جو را اور سین سے شروع ہوتا ہے، یہاں تک کہ را اور ذال کی باری آجائے، وقس علی ہذا۔

(5) أساس البلاغة للزمخشري (ت538هـ)


اس میں لفظ کے حقیقی معنی اور پھر اس کے مجازی استعمال کا ذکر ہے۔ اُدَبا کے لئے بہت مفید ہے۔

🔷 ڈکشنریوں میں الفاظ کی ترتیب کا تیسرا طریقہ یہ ہے کہ کلمہ کے آخری حرف پر انہیں مرتب کیا جائے۔ مثلًا "کتب” کو حرف الباء میں رکھنا، حرف الکاف میں نہیں۔ اس ترتیب کا فائدہ یہ ہے کہ کلمہ کے پہلے حرف میں تصریفات اور قلب کی صورت میں تبدیلی کا ہمیشہ ڈر لاحق ہوتا ہے لیکن آخری حرف میں نہیں۔ اس نہج پر بھی بہت ساری ڈکشنریوں کو مرتب کیا گیا ہے۔ بعض نمونے ملاحظہ فرمائیں۔

(1) الصحاح للجوهري (ت393هـ قريبًا)


یہ ایک ضخیم ڈکشنری ہے جس میں چالیس ہزار لغوی مادے موجود ہیں۔ یہ عمدہ ڈکشنریوں میں سے ایک ہے۔ اس کتاب کو جو مقبولیت حاصل ہوئی دیگر کو کم ہی حاصل ہو سکی۔ اسی لئے علمائے کرام کی ایک بہت بڑی جماعت نے اس پر متعدد کتابیں تصنیف کی ہیں جن کی تعداد سو سے زائد ہے۔ کسی نے تعلیق چڑھائی تو کسی نے اس پر تکملہ کا کام کیا، کسی نے استدراک کیا تو کسی نے مقارنہ، کسی نے نقد کیا تو کسی نے دفاع، کسی نے اختصار کیا تو کسی نے اسے منظومہ کی شکل دی۔ ان تمام خدمات کی تفصیلات جاننے کے لئے الصحاح پر استاد عباس محمود العقاد کا مقدمہ (ص157-212) پڑھیں جس میں انہوں نے ایک سو نو (109) کتابوں کا ذکر کیا ہے۔

(2) العباب الزاخر واللباب الفاخر للصغاني (ت650هــ)


اس کتاب کے مؤلف کا تعلق قدیم غیر منقسم ہندوستان سے ہے۔ صحیح بخاری کا ان کا نسخہ "نسخہ بغدادیہ” کے نام سے مشہور ہے جس سے حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں کافی استفادہ کیا ہے۔ ان کی سوانح حیات اور علمی خدمات پر خاکسار کا ایک مقالہ بعنوان: ”علامہ صغانی: متحدہ ہندوستان کا ایک راویِ صحیح بخاری“ فری لانسر میں شائع ہو چکا ہے۔ یہ ایک محدث اور فقیہ کے ساتھ بہت بڑے لغوی تھے۔ ان کی یہ کتاب بڑی اہمیت کی حامل ہے لیکن افسوس کہ غیر مکمل ہے۔ امام سیوطی اس کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "أعظمُ كتابٍ أُلِّفَ في اللغة بعد عَصْرِ الصحاح كتابُ المُحْكَم والمحيط الأعظم لأبي الحسن علي بن سِيدَه الأندلسي الضَّرير ثم كتابُ العُباب للرضي الصَّغاني”۔ [المزہر فی علوم اللغہ وانواعہا: 1/76]
(زمانۂ ”الصحاح“ کے بعد لغت میں جو سب سے عظیم کتاب لکھی گئی وہ ابو الحسن علی بن سیدہ الاندلسی الضریر کی کتاب المحکم والمحیط الأعظم ہے ، پھر رضی صغانی کی کتاب العباب ہے۔)

(3) لسان العرب لابن منظور الأفريقي (ت711هــ)


یہ ان کے زمانے تک کی سب سے ضخیم ڈکشنریوں میں سے ایک تھی۔ اس میں اسی ہزار سے زائد لغوی مادے موجود ہیں۔ اس میں نصوص سے شواہد، کلمات پر ضبط، روایات کے مابین ترجیح جیسی سبھی خوبیاں موجود ہیں۔ بہت سارے علما نے اس کی علمی خدمت کی ہے۔

(4) القاموس المحيط للفيروزآبادي (ت817هـ)


یہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے استاد ہیں جن سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کافی استفادہ کیا ہے۔ یہ بھی ایک ضخیم ڈکشنری ہے جس میں ساٹھ ہزار لغوی مادے موجود ہیں۔ انہوں نے پہلے "اللامع المعلم العجاب الجامع بين المحكم والعباب” کے نام سے ایک ڈکشنری تصنیف کرنی شروع کی تھی۔ پانچ جلدوں کے بعد انہیں لگا کہ یہ بہت طویل ہو جائےگی اور سو جلدوں تک پہنچ جائےگی جس کا مراجعہ طلبہ کے لئے مشکل ہوگا، پس سابقہ ارادہ ترک کرکے اس سے مختصر یہ کتاب تصنیف کی جو کہ پھر بھی بہت ضخیم ہے۔
یہ بہت ہی مفید ڈکشنری ہے۔ اسی لئے علمائے کرام کی ایک جماعت نے اس پر مستقل کتابیں تصنیف کی ہیں، جن میں سے سب سے مشہور زبیدی کی ”تاج العروس“ ہے۔

(5) تاج العروس من جواهر القاموس للزبيدي (ت1205هـ)


یہ القاموس للفیروزآبادی کی شرح ہے، اور اس پر کافی استدراک بھی کیا ہے۔ اس کے مؤلف اگرچہ متأخر الوفات ہیں لیکن ان کی یہ کتاب بہت ہی مفید اور ضخیم ہے، بلکہ یہ اب تک کی سب سے بڑی ڈکشنری ہے۔ اس میں ایک لاکھ بیس ہزار لغوی مادے موجود ہیں جنہیں مؤلف نے چودہ سال سے زائد مدت میں چھ سو مصادر سے جمع کیا ہے۔

🔷 اب تک جن معاجم کی بات کی گئی ان کا شمار "معاجم الالفاظ” میں ہوتا ہے۔ بہت سارے ایسے معاجم بھی ہیں جن کا تعلق معانی کے ساتھ ہے۔ یعنی ایک معنی اور موضوع سے متعلق الفاظ کو ایک جگہ جمع کردیا گیا ہے۔ چاہے ایک ہی موضوع پر مستقل کتاب میں ہو یا ایک کتاب میں کئی ایک موضوعات کو جمع کیا گیا ہو۔بطور نمونہ درج ذیل معاجم ملاحظہ فرمائیں:

(1) خلق الإنسان للأصمعي (ت216هـ)
(2) كتاب الإبل للأصمعي
(3) خلق الفرس لمحمد بن زياد الأعرابي (ت231هـ)
(4) كتاب الخيل لمعمر بن المثنى (ت210هـ)
اس کتاب کے مختصر تعارف پر خاکسار کا ایک مضمون فری لانسر میں شائع ہو چکا ہے۔
(5) كتاب الخيل للأصمعي
(6) كتاب الشاء للأصمعي
(7) كتاب الوحوش للأصمعي
(8) كتاب النخل لأبي حاتم السجستاني (ت255هـ)
(9) كتاب السلاح للأصمعي
(10) كتاب البئر لمحمد بن زياد الأعرابي (ت231هـ)
(11) كتاب الريح لابن خالويه (ت370هـ)

🔷 ان تمام کتب میں ایک ہی قسم کے معنی کو موضوع بحث بنایا گیا ہےاور اس کے متعلق الفاظ پر بحث کی گئی ہے۔ جب کہ بعض ایسی کتابیں بھی ہیں جن میں مختلف موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔ بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں:

(1) الغريب المصنف لأبي عبيد القاسم بن سلام (ت224هـ)
(2) كتاب الألفاظ لابن السكيت (ت244هـ)
(3) فقه اللغة وسر العربية للثعالبي (ت429هـ)
(4) المخصص لابن سيده (ت458هـ)
(5) تهذيب الألفاظ للخطيب التبريزي (ت502هـ)

مقالہ نگاروں اور مصنفین کو چاہیے کہ مشکل الفاظ کی شرح کے لئے ان مذکورہ معروف ومعتبر متقدم معاجم کی طرف رجوع کریں۔ ان معاجم میں مطلوبہ لفظ موجود ہونے کے باوجود معاصرین کی ڈکشنریوں کی طرف رجوع کرنا صحیح نہیں۔ مثلًا بعض باحثین مذکورہ متقدم ڈکشنریوں کی طرف رجوع نہ کرکے ان درج ذیل ڈکشنریوں کی طرف رجوع کرتے ہیں:

المعجم الكبير، المعجم الوسيط, المعجم الوجيز (انہیں مجمع اللغہ العربیہ مصر نے شائع کیا ہے)، معجم الفرائد للدكتور إبراهيم السامرائي، القاموس الجديد للجنة من اللغويين في تونس, المنجد للويس معلوف، البستان لعبد الله الميخائيل البستاني، الرائد لجبران مسعود, الشامل لمحمد سعيد إسبر وبلال جنيدي, المعجم العربي الحديث لاروس للدكتور خليل البحر وغیرہ ۔


ان کا یہ عمل قابل تعریف نہیں۔
ہاں اگر متقدم ڈکشنریوں میں مطلوبہ معلومات نہ ملیں تو ان جدید ڈکشنریوں کی طرف رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
ان معاصر ڈکشنریوں میں سب سے معتمد ”المعجم الوسیط“ ہے۔ شیخ محمد عزیر شمس حفظہ اللہ اس کے متعلق فرماتے ہیں: "جدید ڈکشنریوں میں یہ سب سے زیادہ معتمد ہے۔ اسے ماہرین لغت کی ایک ٹیم نے ترتیب دیا ہے۔ اس لئے قابل اعتماد ہے۔ اس کا حال ”المنجد“ جیسا نہیں”۔

🔵 اب تک عام مشکل الفاظ کی بات چل رہی تھی۔ لیکن اگر ان کا تعلق احادیث نبویہ سے ہے تو ان کے لئے غریب الحدیث پر لکھی گئی کتابوں کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ مثلًا:

(1) غريب الحديث لأبي عبيد القاسم بن سلام (ت224هـ)
(2) غريب الحديث لابن قتيبة الدينوري (ت276هـ)
(3) غريب الحديث لإبراهيم بن إسحاق الحربي (ت285هـ)
(4) غريب الحديث للخطابي (ت388هـ)
(5) تفسير غريب ما في الصحيحين للحميدي (ت488هـ)
(6) الفائق في غريب الحديث للزمخشري (ت538هـ)
(7) مشارق الأنوار على صحاح الآثار للقاضي عياض (ت544هـ)


اس میں صحیحین اور موطا امام مالک کی حدیثوں کے غریب الفاظ پر ہی صرف بحث کی گئی ہے۔ اس میں اعلام، انساب اور جگہوں کا بھی ذکر ہے۔ مختلف الفاظ کی روایت میں روات کے اختلافات کا ذکر اور ان کے اوہام کا بھی بیان ہے۔ اس کی ترتیب حروف المعجم پر ہے ، لیکن ہمارے یہاں کے حروف معجم کی معروف ترتیب پر نہیں بلکہ مغاربہ کی ترتیب پر ہے، جو کہ اس طرح ہے: ا ب ت ث ج ح خ د ذ ر ز ط ظ ک ل م ن ص ض ع غ ف ق س ش ھ و ی ۔
اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ امام کتانی کے اس قول سے لگایا جا سکتا ہے: "وهو كتاب لو وزن بالجوهر أو كتب بالذهب كان قليلًا فيه”۔ [الرسالہ المستطرفہ: ص157]
(اگر اس کتاب کو جواہرات سے تولا جاتا یا سونے سے لکھا جاتا پھر بھی کم تھا۔)


(8) غريب الحديث لابن الجوزي (ت597هـ)
(9) النهاية في غريب الحديث والأثر لابن الأثير (ت606هـ)


اس موضوع کی یہ سب سے بہترین اورجامع کتاب ہے۔


(10) مجمع بحار الأنوار في غرائب التنزيل ولطائف الأخبار لمحمد بن طاهر الفتني الغجراتي (ت986هـ)

اس میں غریب القرآن اور غریب الحدیث دونوں ہیں۔ علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ کی تحفۃ الاحوذی کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کتاب ان کے اہم مصادر میں سے ہے۔ اس کتاب سےانھوں نے تحفہ الاحوذی میں کافی استفادہ کیا ہے۔

🔵 جہاں تک مشکل اور غیر معروف اصطلاحات کا معاملہ ہے تو اس کے لئے متعلقہ فن کی امہات کتب کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور اس کا معنی ومفہوم بیان کرنا چاہیے۔ نیز اصطلاحات پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان کی طرف بھی رجوع کرنا چاہیے۔ اگر ان اصطلاحات کا تعلق فقہ سے ہے تو درج ذیل کتابوں کی طرف رجوع کرنا مفید ہوگا:

♦️ حنفی مذہب کے لئے:
(1) طلبة الطلبة لنجم الدين النسفي (ت537هـ)
(2) المُغرِب في ترتيب المُعْرِب للمطرزي (ت610هـ)
(3) أنيس الفقهاء لقاسم القونوي (ت978هـ)

♦️ شافعی مذہب کے لئے:
(4) الزاهر في غريب ألفاظ الشافعي لأبي منصور الأزهري (ت370هـ)
شروع میں بیان کیا جا چکا ہے کہ یہ بہت بڑے لغوی ہونے کے ساتھ ساتھ علمائے شوافع کے بہت بڑے عالم تھے۔ان کی کتاب تہذیب اللغہ اور الزاہر اس کی بہترین دلیل ہے۔
(5) حلية الفقهاء لابن فارس (ت395هـ)
(6) تهذيب الأسماء واللغات للنووي (ت676هـ)
یہ بہت ہی مفید کتاب ہے۔ اس کا پہلا حصہ شخصیات کے تعارف پر اور دوسرا حصہ مشکل کلمات اور اصطلاحات پر مشتمل ہے۔ اسی کتاب کی وجہ سے امام نووی کو امام جرح وتعدیل بھی کہا جاتا ہے۔
(7) تحرير ألفاظ التنبيه للنووي
(8) النظم المستعذب في شرح غريب المهذب للركبي (ت633هـ)
(9) المصباح المنير في غريب الشرح الكبير للفيومي (ت770هـ)

♦️ مالکی مذہب کے لئے:
(10) شرح غريب ألفاظ المدونة للجبي (توفي في القرن الرابع أو الخامس)
(11) الحدود لابن عرفة المالكي (تت803هـ)

♦️ اور حنبلی مذہب کے لئے:
(12) المطلع على أبواب المقنع للبعلي (ت709هـ)

🔵 اور اگر ان مصطلحات کا تعلق شریعت کے دوسرے فنون مثلًا عقیدہ وغیرہ سے ہے تو ان کتابوں کی طرف رجوع کرنا مفید ہوگا:


(1) غریب الحدیث لابن قتیبہ کا مقدمہ
(2) الزينة في الكلمات الإسلامية العربية لأحمد بن حمدان الرازي (ت322هـ)
(3) الحدود الأنيقة والتعريفات الدقيقة لزكريا الأنصاري الشافعي (ت926هـ)

🔵 ساتھ ہی ان کتابوں کی طرف رجوع کرنا بھی مفید ہوگا جو کہ تعریفات اور مصطلحات کے پر ہی لکھی گئی ہیں، مثلًا:


(1) التعريفات للجرجاني (816هـ)
(2) التوقيف على مهمات التعاريف للمناوي (ت1031هـ)
(3) الكليات (معجم في الاصطلاحات والفروق اللغوية) لأبي البقاء الكفوي (ت1094هـ)
(4) كشاف اصطلاحات الفنون للتهانوي (ت1158هـ)

♦️ ہر خاص کلمہ یا اصطلاح کے لئے متخصص اور مناسب مصدر کی طرف رجوع کرنا اور اس کا حوالہ دینا علمی مقالوں میں جان پھونک دیتا ہے، اور یہ اس مقالے کی ایک بڑی خوبی مانی جاتی ہے۔ اور اس کی رعایت نہ کرنا اہل علم کے نزدیک خلل تصور کیا جاتا ہے، بلکہ معیوب مانا جاتا ہے اور ایسے مقالوں کو وہ خاص اہمیت نہیں دیتے۔ اس لئے ان امور کی طرف مقالہ نگاروں اور مصنفین کو خصوصی توجہ دینا چاہیے۔ اللہ ہمیں نفع بخش علم کی نشر واشاعت کی توفیق عطا فرمائے۔

حروفِ اصلیہ


عربی زبان کے تقریبا تمام الفاظ میں کچھ حروف اصلی ہوتے ہیں باقی سب زائد ہوتے ہیں ، جیسے کتاب ، کاتب ، مکتوب ، مکتب ، مکتبہ اور کتبہ میں ک ت ب حروفِ اصلیہ ہیں اور باقی حروف زائد ہیں۔

حروفِ اصلیہ کو پہچاننے کے تین طریقے

پہلا طریقہ


لفظ کا تین حرفی ایسا لفظ بنائیں جو مشہور ہو اور اس میں معنویت بھی یہی والی موجود ہو جیسے تعلیم سے تین حرفی لفظ علم ہے اور معاملہ سے عمل تو بس یہی تین حروف ان کے حروفِ اصلیہ ہیں۔

دوسرا طریقہ


حروفِ زوائد دس ہیں جن کا مجموعہ ہے: "سألتمونیھا” ، تو جو حرف ان میں سے نہ ہو وہ لازما اصلی حرف ہوگا جیسے منفرد لفظ کے اندر ف ر د ایسے ہیں جو سألتمونیھا میں سے نہیں ہیں لہذا یہ تینوں منفرد کے حروفِ اصلیہ ہیں۔
اگرچہ یہ طریقہ ہر لفظ میں کام نہیں آتا مگر اکثر کام آجاتا ہے۔

تیسرا طریقہ


ثلاثی مجرد سے ماضی مطلق کا سب سے پہلا صیغہ بنائیں ، اس میں جتنے اور جو حروف ہوں گے وہ سب اصلی ہوں گے ، جیسے کتاب کے حروفِ اصلیہ ک ت ب ہیں کہ اس کا ماضی کا پہلا صیغہ کَتَبَ ہے، اسی طرح يُقِيْمُوْنَ کا ماضی کا پہلا صیغہ قَامَ ہے جوکہ اصل میں قَوَمَ تھا لہٰذا اس کے حروفِ اصلیہ ق و م ہیں۔ مگر یہ طریقہ علم الصرف سے واقفیت رکھنے والوں کے لیے مفید ہے۔

حروفِ اصلیہ کو مزید اچھی طرح سمجھنے کے لیے کمنٹ میں دیے گئے لنک پر کلک کرکے ویڈیو دیکھ لیں۔

طالبِ دعا:
محمد اسامہ سَرسَری

نہ اور نا میں فرق

"نہ” فقط حرف نفی ہے ، کسی مرکب کا حصہ بنے بغیر آتا ہے جیسے نہ کرو ، نہ کیا ، نہ یہ نہ وہ۔ اس کا عروضی وزن 1 ہے۔

"نا” کے متعدد معانی ہیں:

(1) نفی ، فقط مرکب میں جیسے نامناسب ، نااہل ، ناخلف ، ناجائز

(2) اصرار و تاکید جیسے کرو نا ، نا بابا ، یہ دوست ہے نا

(3) مصدریہ جیسے کرنا جانا لینا دینا (4) استفسار کے لیے جیسے تم نے یہ کرلیا نا آخر۔ اس کا عروضی وزن 2 ہے۔

بعض نو آموز شعراء نہ کو 2 باندھنے کے لیے نا لکھ دیتے ہیں جیسے:
"نا تم نے کچھ کہا ہے نہ میں کہا ہے کچھ”
اس مصرع کے اندر "نا” میں دو غلطیاں ہیں:
(1) املائی کہ اسے "نہ” لکھنا تھا۔
(2) عروضی کہ اسے 1 باندھنا تھا۔

"نہ” اور "نا” میں فرق


یہ دونوں لفظ حرفِ نفی کہلاتے ہیں ، ان میں دو لحاظ سے فرق ہے:

(1) معنوی فرق:
"نہ” صرف نفی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
جبکہ "نا” کے مختلف معانی ہیں جیسے:
۔ ۔ ۔ 1) نفی: جیسے "نہ کر”
۔ ۔ ۔ 2) تاکیدِ نفی: جیسے "نا بابا”
۔ ۔ ۔ 3) تاکید اثبات: جیسے "جانے دیجیے ، بچہ ہے نا”
۔ ۔ ۔ 4) مصدریت جیسے "کھانا ، پینا ، سونا ، جاگنا”
۔ ۔ ۔ 5) حسنِ کلام کے لیے: جیسے "چلونا ، آؤ نا”

(2) استعمالی فرق:
"نا” نافیہ کا استعمال انفرادی طور پر ٹھیک نہیں ہے لہذا "نا کرو” کہنا غلط ہے ، جبکہ "نہ” کو انفرادی طور پر استعمال کیا جاتا ہے ، جیسے "نہ اس نے کھایا نہ میں نے” یہاں "نا” نہیں لکھ سکتے ، "نامعلوم ، نادان ، ناسمجھ ، ناکارہ ، نازیبا” یہاں "نہ” نہیں لاسکتے۔

طالبِ دعا:
محمد اسامہ سَرسَری

محنت اور کامیابی میں فرق

”محنت“ چند روزہ نہیں ہوتی کہ آپ ایک ہی مرتبہ سب کر لیں ۔
مطلب یہ کہ : جیسے ہی کامیابی ملی بس کام ختم ۔


محنت جہدِ مسلسل کا نام ہے اور ہم اس کو دِنوں یا ہفتوں پر محیط کر لیں یہ ممکن نہیں ۔ ہر کام محنت پر مبنی ہے جہاں ہم رک گئے ، وہیں سے ہماری ناکامی شروع ہوتی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہم بہت محنتی انسان ہیں ۔ہمیں ناکامی کیوں ہو رہی ہے ؟ مگر ہم یہ نہیں سوچتے کہ پچھلی والی محنت ، آگے کی زندگی کو کامیابی میں بدلنے کے لیے نا کافی ہے ۔ کیونکہ شروع میں کامیابی کے لیے لگاتار محنت کرنی پڑے گی ۔


دراصل کامیاب وہی ہوتا ہے جو ناکام ہوتا رہے اور پھر تندہی سے اپنے مقصد کے حصول کے لیےڈٹ کر مقابلہ کرتا رہے ۔ظاہر ہے جب آپ کچھ نیا کریں گے تو اس میں ناتجربہ کاری کے باعث آپ کو غلطیوں کا سامنا بھی کرنا پڑے گا ۔بار بار کی محنت آپ کے کام کو معیاری اسی لیے بناتی ہے کیونکہ آپ نے ہر بار ناکام ہو کر اپنی محنت کرنے کے انداز کو درست کر کے بدلا ہو گا ،اور مختلف زاویوں سے کام کیا ہو گا ۔۔اورایک دن یہی محنت آپ کو کامیابی کی طرف گامزن کر دیتی ہے ۔کیونکہ آپ غلطیوں کا تدارک کرنا سیکھ جاتے ہیں ۔اب آپ کے پاس اس کام کو کرنے کے لیے ایک مضبوط اور پر اعتماد لائحہ عمل موجود ہوتا ہے ۔ اسی لیے اپنا جذبہ یقین نہیں کھونا چاہیے ۔اور محنت کرتے رہنا چاہیے ،پھر ایک دن آئے گا کہ آپ کو اتنی محنت کی ضرورت نہیں ہوگی ۔

انشائیے اور مضمون میں فرق

(1) مضمون میں موضوع کی قید ہوتی ہے ، انشائیہ اس قید سے آزاد ہوتا ہے۔

(2) مضمون میں عالمانہ اور محققانہ انداز اختیار کیا جاتا ہے جبکہ انشائیہ میں مؤثر انداز بیان اختیار کرکے بات کی جاتی ہے۔ بالفاظ دیگر مضمون میں معلومات فراہم کی جاتی ہیں اور انشائیے میں تاثرات کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔

(3) مضمون کی ہیئت مخصوص ہے یعنی پہلے تعارفی بات ، پھر نفس مضمون ، پھر اختتامیہ ، جبکہ انشائیہ میں اس ہیئت کا التزام نہیں ہوتا ، بلکہ ایک غیر رسمی سا اسلوب اختیار کیا جاتا ہے۔

(4) مضمون کسی قدر خشک ہوتا ہے اور قاری کی ذاتی دل چسپی ہی اسے مضمون کی جانب متوجہ کرتی ہے ، جبکہ انشائیہ اپنے دل چسپ انداز بیان کے ذریعے قاری کی توجہ اول تا آخر حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

(5) مضمون میں مزاح کی بھی بھرپور گنجائش ہے ، جبکہ انشائیہ میں طنز اور مزاح کا عنصر کم سے کم رکھا جاتا ہے۔

(6) انشائیہ کے بارے میں اگر مضمون لکھا جائے تو معلومات کو یکجا کرنے کے لیے کئی کتب اور حوالہ جات کا سہارا لینا ناگزیر ہوگا ، جبکہ مضمون کے بارے میں اگر انشائیہ لکھنا ہو تو کسی کتاب کو کھولنے کی ضرورت نہیں ، بلکہ لکھنے والا مضمون کے بارے میں اپنے اب تک کے تاثرات کو انشائیہ کی صورت میں اپنے قارئین کے سامنے پیش کرسکتا ہے۔

خاکہ نگاری اور کہانی کے خاکے میں فرق

خاکہ کسے کہتے ہیں ؟ خاکہ نگاری اور کسی کہانی کے خاکے میں کیا فرق ہے ؟

خاکہ کہتے ہیں ، کسی چیز کے ڈھانچے کو، اس کے خال و خد کو ، اس کی بنیادی حالت اور ہیئت کو ۔
کسی کہانی میں ”خاکہ“ اس کے بنیادی خیال ہوتے ہیں جس پر کہانی تشکیل پاتی ہے یعنی جیسے عمارت کے لیے ستون درکار ہوتے ہیں ویسے ہی خاکہ بھی ہے ۔ آپ اپنے دماغ میں کہانی سے متعلق کچھ چیدہ چیدہ خیال بن کر ان میں کردار ، تعلقات ، عوامل سب کو کس طرح کہانی میں شامل کر کے کہانی میں سموتے ہیں یہ ”خاکہ“ کہلاتا ہے ۔

خاکہ نگاری : یہ کسی بھی ایسی شخصیت جو معروف بھی ہو ، جس کو آپ بہت اچھی طرح جانتے بھی ہوں اور اس کی زندگی سے متعلق آپ کو بہت معلومات بھی ہوں ۔۔آپ کے تعلق کی نوعیت بے تکلفی پر بھی مبنی ہو ۔تو آپ اس کے زندگی کے مختلف پہلوٶں پر لکھتے ہیں اور جس میں اس انسان کی شخصیت کھل کر سب کے سامنے آ جاتی ہے ۔ یہ ”خاکہ نگاری “ کہلاتی ہے ۔

”خاکہ نگاری “ سنجیدگی پر مبنی بھی ہو سکتی ہے اور ہلکے پھلکے انداز میں بھی کی جا سکتی ہے ، یہ لکھنے والے کی مرضی پر منحصر ہے ۔

دعا کی خواست گار : نازیہ نزی

رموز بے خودی سے چند اشعار

علامہ محمد اقبال

در معنئ ایں کہ بقائے نوع از امومت است و حفظ و احترامِِ امومت اسلام است۔


ترجمہ!


اس مضمون کی وضاحت میں کہ نسلِِ انسانی کی بقا امومت سے ھے اور امومت کی حفاظت اور احترام اسلام ھے۔
ا==============================

(1)

نغمہ خیز از زخمۂ زن سازِ مرد
. از نیازِ اُو دوبالا نازِ مرد


ترجمہ


عورت کے مضراب سے مرد کا ساز نغمہ پیدا کرتا ھے، عورت کے نیاز سے مرد کا ناز دوبالا ھو جاتا ھے۔

(2)

پوششِ عریانی مرداں زن است


. حُسنِ دلجو عشق را پیراہن است


ترجمہ


مردوں کی عریانی کی پوشاک عورت ھے، دل لبھانے والا حُسن عشق کا لباس ھے۔

(3)

عشقِ حق پروردۂ آغوشِ اُو


. ایں نوا از ذخمۂ خاموشِ اُو


ترجمہ


سچا عشق عورت کی آغوش میں پرورش پاتا ھے، یہ آواز عورت کے خاموش مضراب ھی سے اُٹھتی ھے۔

(4)

آنکہ نازد بر وجودش کائنات


. ذکرِ اُو فرمود طیب و صلوات


ترجمہ!
وہﷺ کہ جن کے وجود پر کائنات ناز کرتی ھے، آپﷺ نے خوشبو اور نماز کے ساتھ عورت کا ذکر فرمایا۔

(5)

مسلمے کو را پرستارے شمرد


. بہرۂ از حکمتِ قرآں نبرد


ترجمہ


ایسا مُسلمان جس نے عورت کو لونڈی بنا رکھا ھے، اُس نے قرآن کی حکمت سے حصہ نہیں پایا۔

(6)

نیک اگر بینی امومت رحمت است


. زانکہ اُو را با نبوت نسبت است


ترجمہ!
اے مِِلت اگر تُو غور سے دیکھے تو امومت رحمت ھے، کیونکہ امومت نبوت سے نسبت رکھتی ھے۔

(7)

شفقتِ اُو شفقتِ پیغمبر است


. سیرتِ اقوام را صورت گر است


ترجمہ


امومت کی شفقت پیغمبرﷺ کی شفقت ھے، امومت قوموں کی سیرت کو تعمیر کرتی ھے۔

(8)

از امومت پُختہ تر تعمیرِ ما


. در خطِ سیماے اُو تقدیرِ ما


ترجمہ


امومت سے ھماری تعمیر زیادہ پختہ ھوتی ھے، امومت کی پیشانی کی لکیروں میں ھماری تقدیر ھوتی ھے۔

(9)

ہست اگر فرہنگِ تُو معنی رسے


. حرفِ اُمت نکتہ ہا دارد بسے


ترجمہ


اے مِِلت اگر تیری سمجھ کو معانی تک رسائی حاصل ھے، تو دیکھ لفظ "اُمت” میں بہت سے نکات پوشیدہ ھیں۔

(10)

گفت آں مقصودِ حرفِ کُن فکاں


. زیرِ پاے اُمہات آمد جناں


ترجمہ


آپﷺ کُن فکاں کے حرف کے مقصود نے فرمایا، کہ جنت ماں کے پاؤں کے نیچے ھے۔

(11)

ملت از تکریمِ ارحام است و بس


. ورنہ کارِ زندگی خام است و بس


ترجمہ!


مِِلت صرف ماں کی عزت اور احترام سے ھے، ورنہ زندگی کا کام صرف ادھورا ھی ھے۔

(12)

از امومت گرم رفتارِ حیات


. از امومت کشفِ اسرارِ حیات


ترجمہ


زندگی کا آگے بڑھنا امومت ھی سے ھے، زندگی کے راز امومت ھی سے ظاہر ھوتے ھیں۔

(13)

از امومت پیچ و تابِ جوئے ما


. موج و گرداب و حبابِ جوئے ما


ترجمہ!
ھماری ندی کا پیچ و تاب امومت ھی سے ھے، ھماری ندی کا حباب اور موج و گرداب امومت سے ھے۔

(14)

آں دخِ رستاق زادے جاہلے


. پست بالاے سطیرےبد گلے


ترجمہ


ایسی لڑکی جو گنوار اور جاہل ھو، جس کا قد چھوٹا جسم موٹا اور چہرہ بد صورت ھو۔

(15)

نا تراشے پرورش نا دادۂ


. کم نگاہے کم زبانے سادۂ


ترجمہ


جو غیر مہذب ھو، جس کی پرورش اچھی نہ ھوئی ھو، جو کوتاہ نظر کم زبان اور سادہ مزاج ھو۔

(16)

دل ز آلامِ امومت کردہ خوں


. گردِ چشمش حلقہ ہاے نیلگوں


ترجمہ


اگر اُس نے زچگی کے مصائب سے دل خون کیا ھو، اُس کی آنکھوں کے گرد نیلگوں حلقے پڑ گئے ھوں۔

(17)

ملت آر گیرد ز آغوشش بدست


. یک مُسلماں غیور و حق پرست


ترجمہ


اگر اُس کی آغوش سے مِِلت کو میسر ھُوا، ایک حق پرست اور غیور مُسلمان۔

(18)

ہستئ ما محکم از آلامِ اوست


. صبحِ ما عالم فروز از شامِ اُو


ترجمہ


تو اس کے مصائب نے ھمارے مِِلی وجود کو محکم کر دیا، اس لڑکی کی شام سے ھماری صبحِِ روشن ھو گئی۔

(19)

واں تہی آغوش نازک پیکرے


. خانہ پروردِ نگاہش محشرے


ترجمہ


اور ایک ایسی نازک بدن لڑکی جس کی آغوش خالی ھے، محشر برپا کرنے والی نگائیں رکھتی ھے۔

(20)

فکرِ اُو از تابِ مغرب روشن است


. ظاہرش زن باطنِ اُو نا زن است


ترجمہ!


اس لڑکی کی سوچ مغرب کی چمک دمک سے روشن ھے، اس کا ظاہر عورت ھے اور باطن عورت نہیں ھے۔

(21)

بند ہاے ملتِ بیضا گسیخت


. تا ز چشمش عشوہ ہا حل کردہ ریخت


ترجمہ


اس نے مِِلتِِ بیضا کی پابندیاں توڑ دیں، تب اس کی آنکھ بے حجابانہ غمزہ زن ھے۔

(22)

شوخ چشم و فتنہ ز آزادیش


. از حیا نا آشنا آزادیش


ترجمہ


اس کی شوخ چشمی اور فتنہ پیدا کرنے والی آزادی، اس کی یہ آزادی شرم و حیا سے نا آشنا ھے۔

(23)

علمِ اُو بارِ امومت بر نتافت


. بر سرِ شامش یکے اختر نتافت


ترجمہ


اس کے علم نے اسے بارِِ امومت کے بار سے بیزار کر دیا، اس لڑکی کی شام پر ایک ستارہ بھی نہ چمکا۔

(24)

ایں گُل از بستانِ ما نا رستہ بہ


. داغش از دامانِ ملت شستہ بہ


. ترجمہ


. یہ پُھول ھمارے باغ میں نہ کِِھلے تو بہتر ھے،
. مِِلت کے دامن سےاس کا داغ دھو دینا بہتر
. ھے۔

(25)

لا اِلہ گویاں چو انجم بے شمار


. بستہ چشم اندر ظلامِ روزگار


ترجمہ


لا اِِلہ کہنے والے ستاروں کی طرح لا تعداد ھیں، زمانے کی تاریکی کے اندر آنکھیں بند کیئے ھوئے ھیں۔

(26)

پا نبردہ از عدم بیروں ہنوز


. از سوادِ کیف و کم بیروں ہنوز


ترجمہ


انہوں نے ابھی پاؤں کو عدم سے باہر نہیں نکالا، ابھی "کیسا اور کتنا” کی شُدھ بُدھ سے باہر ھیں۔

(27)

مضمر اندر ظلمتِ موجودِ ما


. آں تجلی ہاے نا مشہودِ ما


ترجمہ


وہ ھماری موجود تاریکیوں کے اندر چُھپے ھوئے ھیں، وہ ھماری تجلیات ھیں جو ابھی ظاہر نہیں ھوئیں۔

(28)

شبنمے بر برگِ گُل نہ نشستۂ


. غنچہ ہاے از صبا نا خستۂ


ترجمہ


وہ شبنم کی طرح ھیں جو ابھی پُھول کی پتی پر نہیں گری، ایسے غنچے کی طرح جسے ابھی صبحِِ کی ھُوا نے نہیں چھیڑا۔

(29)

بر دمد ایں لالہ زارِ ممکنات


. از خیابانِ ریاضِ اُمہات


ترجمہ


ممکنات کا یہ لالہ زار پُھوٹتا ھے، ماؤں کے باغات کے چمن ھی سے۔

(30)

قوم را سرمایہ اے صاحبِ نظر


. نیست از نقد و قماش و سیم و زر


ترجمہ


اے صاحبِِ نظر! قوم کا سرمایہ، نقدی، لباس اور سونا چاندی نہیں ھے۔

(31)

مالِ اُو فرزند ہاے تندرست


. تر دماغ و سخت کوش و چاک و چست


ترجمہ


قوم کا سرمایہ تندرست بیٹے ھیں، جو روشن دماغ، محنتی اور چاک و چو بند ھوں۔

(32)

حافظِ رمزِ اخوت مادراں


. قوتِ قرآن و ملت مادراں


. ترجمہ


. بھائی چارے کی رمز کی محافظ مائیں ہیں،
. مِِلت اور قرآن کی قوت مائیں ہیں۔

علم و فن

دل کی بات

مصعب شاہین ۔ میانوالی
دل کی بات کہتا ہوں دوستو!
ڈگریاں کیا ہیں بقول اشفاق احمد مرحوم فقط اخراجات کی رسیدیں ہیں۔ اگر آپ تعلیم اس لیے حاصل کرتے ہیں کہ 14,16 پڑھ کر یا پی ایچ ڈی کرکے آپ کو اچھی نوکری مل جائے گی تو معذرت کے ساتھ آپ معاشرے کے لیے کارآمد فرد نہیں ثابت ہوسکتے کیوں کہ آپ کا مقصد بہت سطحی ہے۔ تعلیم تو برائے شعور ہوتی ہے۔ پرائیویٹ سیکشن میں کسی بھی ملازمت کے لیے آپ سے تجربہ مانگا جاتا ہے۔ سرکاری سیکشن میں آپ کی قابلیت کو انٹرویوز وغیرہ کے ذریعے جانچا جاتا ہے۔ خود ہی بتائیے کہ ڈگریز کی کتنی ویلیو ہوتی ہے۔ 50,50 نا۔ اصل تعلیم ہی آپ کی فیلڈ میں آنے کے بعد شروع ہوتی ہے۔ آپ یہاں پریکٹیکلی سیکھتے ہیں۔ امسال درس نظامی سے فارغ ہونے والے طلبہ کو شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب نے یہی نصیحت فرمائی کہ اپنے آپ کو کبھی فارغ التحصیل مت سمجھیے گا۔ ہم نے ان 8 سالوں میں آپ کو ایک سمت مہیا کی ہے ، اصل تعلیم تو اب شروع ہوگی۔ ذرا سوچیے کتنی گہری بات ہے! اس سب گفتگو سے سمجھ میں آتا ہے کہ تعلیم برائے شعور ہے نہ کہ برائے ملازمت۔
پیسہ کمانے کے لیے ایک اور چیز ہوتی ہے اور وہ ہے سکل، کوئی فن۔ اس کی قابلیت کا معیار کچھ اور ہے۔ دنیا میں کامیاب ترین اقوام وہی ہیں جنہوں نے علم و فن دونوں کو پراپر اہمیت دی ، دونوں کا معیار جدا رکھا، انھیں آپس میں گڈمڈ نہیں کیا۔ دنیا میں آج تک سب سے امیر لوگ سب سے پڑھے لکھے لوگ نہیں تھے بلکہ وہ تھے جن کے پاس کوئی سکل تھی۔ پس ثابت ہوا کہ امارت کا تعلق سکل سے ہے نہ کہ تعلیم سے۔ دنیا کے سب سے صاحب فراست لوگ علم والے تھے نہ کہ پیسے والے۔
اب جو وقت کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ہم ان دونوں کی تحصیل کی جانب گامزن ہوں لیکن مقاصد کو گڈمڈ نہ ہونے دیں۔ پھر دیکھیں ہماری قوم کیسے ترقی پائے گی!

Design a site like this with WordPress.com
شروع کریں