علم و فن

دل کی بات

مصعب شاہین ۔ میانوالی
دل کی بات کہتا ہوں دوستو!
ڈگریاں کیا ہیں بقول اشفاق احمد مرحوم فقط اخراجات کی رسیدیں ہیں۔ اگر آپ تعلیم اس لیے حاصل کرتے ہیں کہ 14,16 پڑھ کر یا پی ایچ ڈی کرکے آپ کو اچھی نوکری مل جائے گی تو معذرت کے ساتھ آپ معاشرے کے لیے کارآمد فرد نہیں ثابت ہوسکتے کیوں کہ آپ کا مقصد بہت سطحی ہے۔ تعلیم تو برائے شعور ہوتی ہے۔ پرائیویٹ سیکشن میں کسی بھی ملازمت کے لیے آپ سے تجربہ مانگا جاتا ہے۔ سرکاری سیکشن میں آپ کی قابلیت کو انٹرویوز وغیرہ کے ذریعے جانچا جاتا ہے۔ خود ہی بتائیے کہ ڈگریز کی کتنی ویلیو ہوتی ہے۔ 50,50 نا۔ اصل تعلیم ہی آپ کی فیلڈ میں آنے کے بعد شروع ہوتی ہے۔ آپ یہاں پریکٹیکلی سیکھتے ہیں۔ امسال درس نظامی سے فارغ ہونے والے طلبہ کو شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب نے یہی نصیحت فرمائی کہ اپنے آپ کو کبھی فارغ التحصیل مت سمجھیے گا۔ ہم نے ان 8 سالوں میں آپ کو ایک سمت مہیا کی ہے ، اصل تعلیم تو اب شروع ہوگی۔ ذرا سوچیے کتنی گہری بات ہے! اس سب گفتگو سے سمجھ میں آتا ہے کہ تعلیم برائے شعور ہے نہ کہ برائے ملازمت۔
پیسہ کمانے کے لیے ایک اور چیز ہوتی ہے اور وہ ہے سکل، کوئی فن۔ اس کی قابلیت کا معیار کچھ اور ہے۔ دنیا میں کامیاب ترین اقوام وہی ہیں جنہوں نے علم و فن دونوں کو پراپر اہمیت دی ، دونوں کا معیار جدا رکھا، انھیں آپس میں گڈمڈ نہیں کیا۔ دنیا میں آج تک سب سے امیر لوگ سب سے پڑھے لکھے لوگ نہیں تھے بلکہ وہ تھے جن کے پاس کوئی سکل تھی۔ پس ثابت ہوا کہ امارت کا تعلق سکل سے ہے نہ کہ تعلیم سے۔ دنیا کے سب سے صاحب فراست لوگ علم والے تھے نہ کہ پیسے والے۔
اب جو وقت کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ہم ان دونوں کی تحصیل کی جانب گامزن ہوں لیکن مقاصد کو گڈمڈ نہ ہونے دیں۔ پھر دیکھیں ہماری قوم کیسے ترقی پائے گی!

تبصرہ کریں

Discover more from مکتب علوم شریعت

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

پڑھنا جاری رکھیں

Design a site like this with WordPress.com
شروع کریں